جمال خاشقجی کے پانچ قاتلوں کو سزائے موت

سعودی عرب کے پبلک پراسیکیوٹر کے مطابق جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث پانچ افراد کو سزائے موت اور تین افراد کو 24 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

اپنے قتل سے قبل جمال خاشقجی امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں کالم لکھا کرتے تھے(اے ایف پی)

سعودی عرب نے استنبول میں اپنے قونصل خانے میں قتل ہونے والے صحافی جمال خاشقجی کے پانچ قاتلوں کو سزائے موت اور تین کو 24 سال قید کی سزا سنائی ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ان سزاؤں کا اعلان سعودی پبلک پراسیکیوٹر نے پیر کو کیا۔

پبلک پراسیکیوٹر نے اپنے بیان میں کہا کہ سابق شاہی مشیر سعود القہتانی کے خلاف بھی اس قتل کیس میں تحقیقات کی گئیں تاہم ان پر جرم ثابت نہیں ہوا اور انہیں رہا کر دیا گیا۔ اپنے قتل سے قبل جمال خاشقجی امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں کالم لکھا کرتے تھے۔

عرب نیوز کے مطابق عدالت میں خاشقجی کے قتل کے وقت سعودی قونصل جنرل محمد العتيبی کی جائے وقوعہ پر موجودگی بھی ثابت نہیں ہوئی۔ خاشقجی قتل کیس میں عدالت کی نو سماعتیں ہوئیں اور دسویں سماعت میں فیصلہ جاری کیا گیا۔

فیصلوں کے اجرا کے دوران خاشقجی کے خاندان کے افراد اور ترکی کے سرکاری نمائندے عدالت میں موجود تھے۔

تین دیگر افراد کو مجموعی طور پر 24 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ استغاثہ کے مطابق تفتیش سے پتہ چلا ہے کہ خاشقجی کو قتل کرنے کی پہلے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

استغاثہ نے مزید کہا کہ سابق ڈپٹی انٹیلی جنس چیف احمد العسیری کو ناکافی شواہد کی بنا پر بری کیا گیا ہے۔

سعودی وزارت خارجہ کے ٹویٹ کے مطابق اس کیس میں 31 افراد نامزد تھے جن میں سے 21 گرفتار کیے گئے جب کہ دس کو شامل تفتیش کیا گیا۔ 

سعودی نژاد صحافی اور امریکی شہری جمال خاشقجی دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے بعد لاپتہ ہو گئے تھے۔ صحافی کی گمشدگی کے کچھ دن بعد مغربی میڈیا سے یہ موقف سامنے آیا تھا کہ خاشقجی کو مار دیا گیا تاہم اس موقف کی متعدد بار تردید کی گئی۔

خاشقجی کی گمشدگی کے کچھ عرصے بعد منظر عام پر آیا کہ صحافی جمال خاشقجی استنبول کے سعودی قونصل خانہ میں جھگڑے کے دوران ہلاک ہوئے۔

امریکہ نے سمیت مغربی ممالک کا رد عمل اس معاملے پر شدید رہا۔ متعدد مغربی ممالک نے اس حوالے سے سعودی عرب میں ہونے والی سرمایہ کاری کانفرنس کے بھی بائیکاٹ کیا۔

سعودی عرب کے سرکاری میڈیا کے مطابق شاہ سلمان نے واقعے پر دو سینئیر اہلکاروں کو برطرف کیا تھا جن میں سعودی شاہی عدالت کے مشیر سعود القہتانی اور ڈپٹی انٹیلیجنس چیف احمد انصاری شامل تھے۔ واضح رہے کہ سعود القہتانی پر جرم ثابت نہیں ہو سکا اور وہ اب رہا ہو چکے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا