’نہ نوکری ملتی ہے اور نہ شادی ہو رہی ہے‘

ایک بارودی سرنگ دھماکے میں زخمی ہونے والے نوجوان کو مشکلات کا سامنا ہے۔ عسکری ذرائع کے اعداد و شمار کے مطابق ضم شدہ قبائلی اضلاع میں گذشتہ چار سالوں کے دوران تقریباً15 سو سے زیادہ دھماکے ہوئے جن میں 13 سو سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے۔

 25 سالہ حبیب باردودی سرنگ کا شکار ہو کر زندگی بھر کےلیے معذور ہوگئے (رفعت اللہ اورکزئی)

حبیب اللہ کا تعلق ضلع جنوبی وزیرستان کے علاقے لدھا سب ڈویژن سے ہے لیکن وہ گذشتہ کئی سالوں سے کراچی میں مقیم ہیں۔ دو سال پہلے ان کی زندگی میں اچانک ایک ایسا طوفان آیا جس نے نہ صرف ساری زندگی کےلیے انہیں معذور کر دیا بلکہ انہیں اب کوئی نوکری دینے کے لیے بھی تیار نہیں۔

 25 سالہ حبیب اللہ جنوبی وزیرستان میں آپریشن کے بعد گھر کے قریب کام کر رہے تھے کہ اچانک ان کا پاؤں وہاں بارش کے پانی میں بہہ کر آنے والی ایک بارودی سرنگ سے جا ٹکرایا۔ اس کے نتیجے میں ہونے والے دھماکے کے بعد حبیب ساری زندگی کےلیے معذور ہو گئے۔

حبیب ان علاقوں میں بچھی ہزاروں بارودی سرنگوں میں سے ایک کا شکار ہوئے ہیں جو یہاں مختلف اوقات میں بچھائی گئی تھیں۔ یہ بارودی سرنگیں اب تک ہٹائی نہیں جا سکیں لیکن گذشتہ چار برسوں میں 13 سو سے زیادہ لوگ ان کی زد میں آ چکے ہیں۔ 

حبیب 12 دن ڈیرہ اسمٰعیل خان کے ہپستال میں داخل رہے اور اس دوران ان کے  تین آپریشن ہوئے۔ ان کی ٹانگ کو انتا نقصان پہنچا تھا کہ ڈاکٹروں کو بالاآخر اسے دو مرتبہ کاٹنا پڑا۔

حبیب نے بتایا: ’میں دس سال کا تھا جب میں بھائیوں کے ساتھ کراچی منتقل ہو گیا تھا اور وہاں ڈمپر چلایا کرتا تھا جس سے مہینے میں 20 سے25 ہزار روپے کماتا تھا۔ لیکن اس واقعے سے میری زندگی برباد ہو گئی اور اب میں بھائیوں کے سہارے زندگی گزار رہا ہوں۔‘

ان کے بقول: ’ اب تو  کوئی نوکری دینے کے لیے بھی تیار نہیں۔ میری شادی کی عمر بھی ہو چکی ہے لیکن جدھر رشتہ بھیجتا ہوں لوگ انکار کر دیتے ہیں۔‘

حبیب اللہ مصنوئی ٹانگ کے سہارے چلتے ہیں۔ ان کے مطابق جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشنوں کے دوران پہاڑی مقامات پر سکیورٹی فورسز اور طالبان تنظیموں کی طرف سے وسیع پیمانے پر بارودی سرنگیں بچھائی گئیں جس سے کئی ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اکثر اوقات یہ دیکھنے میں آیا کہ جب بارشیں ہوتی تو بارودی سرنگیں ان میں بہہ کر آجاتی اور مٹی تلے دب جاتی ہیں اور پھر جب وہاں  سے کسی انسان یا جانور کا گزر ہوتا ہے تو وہ ان سرنگوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں جانتے کہ وہ’ کس کی جانب سے نصب کیے گئے مائن کا نشانہ بنے کیونکہ ان علاقوں میں شدت پسند بھی قابض رہے اور سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹیں بھی تھیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے سابق قبائلی اضلاع میں آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کے بعد بیشتر علاقوں سے نہ صرف شدت پسند تنظیموں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے بلکہ ان علاقوں میں امن امان کی صورت حال بھی کافی حد تک بہتر ہو چکی ہے۔ تاہم مختلف اوقات میں یہاں بچھائی گئی بارودی سرنگوں اور دیسی ساخت کے دھماکہ خیز مواد کے ذریعے سے سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کے واقعات تسلسل سے جاری  ہیں جن میں کئی لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔

عسکری ذرائع کی طرف سے پہلی مرتبہ ضم شدہ اضلاع میں بارودی سرنگوں سے ہونے والی ہلاکتوں کے اعداد و شمار جاری  کیے گئے ہیں جن کے مطابق گذشتہ چار سالوں کے دوران تقریباً 15 سو سے زیادہ دھماکے ہوئے جن میں مجموعی طورپر 326 افراد ہلاک اور 13 سو سے زیادہ ز خمی ہوئے ۔ ہلاک اور ز خمی ہونے والوں میں اکثریت سکیورٹی اہلکاروں کی ہے، تاہم ان واقعات میں عام شہری بھی بڑی تعداد میں مارے گئے۔ ان میں زیادہ تر دھماکے جنوبی و شمالی وزیرستان ، باجوڑ، خیبر اور مہمند کے اضلاع میں پیش آئے تاہم اس کے علاوہ اورکزئی اور کرم بھی ان واقعات سے متاثر رہے ہیں۔

سابق قبائلی علاقوں میں بارودی سرنگوں سے ہلاکتوں کے اکا دکا واقعات تو پہلے بھی ہوتے رہے ہیں لیکن اس میں زیادہ شدت اس وقت دیکھنے میں آئی جب وہاں فوجی کارروائیوں کا آغاز کیا گیا۔ یہ بھی اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ شدت پسند تنظیمیں بارودی سرنگوں کو اپنے  لیے بطور دفاع استعمال کرتی رہی ہیں اور اس حکمت عملی میں کسی حد تک کامیاب بھی رہیں۔

بارودی سرنگوں یا دھماکہ خیز مواد کی کئی اقسام ہیں جن میں دیسی ساخت کے بم بھی شامل ہیں۔

آئی ای ڈی یا دیسی ساخت کا بم

آئی ای ڈی یا دیسی ساخت کا بم شدت پسند تنظیموں کا موثر ہتھیار رہا ہے۔  شاید دیسی ساخت کا بم وہ واحد ہتھیار ہے جس کا نہ صرف بنانا نہایت آسان ہے بلکہ غیر روایتی جنگوں میں اس کا استعمال بھی زیادہ اور موثر رہا ہے۔ عسکریت پسند تنظمیوں میں آئی ای ڈیز کے بنانے والوں کی تعداد بھی ہمیشہ سے زیادہ رہی ہے ۔ پاکستان کے جنگ زدہ علاقوں میں اس ہتھیار کو بیشتر اوقات سکیورٹی فورسز کے قافلوں کو سڑک کے کنارے نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اس ہتھیار کو سرنگ کھود کر یا سڑک کے اوپر رکھ کر نصب کیا جاتا ہے اور ایک فیوز کے ساتھ لگا کر اسے اڑایا جاتا ہے۔ یہ دھماکے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے سے بھی کیے جاتے ہیں۔

پاکستان کے علاوہ افغانستان اور عراق میں بھی شدت پسند گروہ اس ہتھیار کا وسیع پیمانے پر استعمال کرتے رہے ہیں۔

اینٹی پرسنل مائن

یہ بھی دیسی ساخت کا ایک بم ہوتا ہے جو عام طورپر ٹینک یا گاڑی کو نشانہ بنانے کےلیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم اس سے عام طورپر زیادہ جانی نقصان کا خدشہ نہیں ہوتا۔ ضم شدہ اضلاع میں اس ہتھیار کی وجہ سے بھی سکیورٹی اہلکار اور شہری نشانہ بنتے رہے ہیں۔

ان ایکسپلوڈیڈ ارڈنینس یا یو ایکس اووز

یہ وہ دھماکہ خیز مواد ہوتا ہے جو فائر ہونے کے بعد کسی وجہ سے پھٹ جانے سے رہ جاتا ہے یا اکثر اوقات کسی ویران علاقے میں گر جاتا ہے۔ ایکسپلوڈیڈ ارڈنینس (unexploded ordnance) بم کا گولہ، دستی بم، راکٹ لانچر کا گولہ ، مارٹر شیل یا دیسی ساخت کا دھماکہ خیز مواد شامل ہوتا ہے۔ عام طورپر دیکھا گیا ہے کہ ایسے ہتھیاروں سے نقصانات اس وقت ہوتے ہیں جب وہاں سے کسی کا گزر ہوتا ہے۔ ان ہتھیاروں کے پھٹنے سے مویشی بھی بڑی تعداد میں ہلاک ہو چکے ہیں۔

سرنگوں کا خاتمہ

عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ گذشتہ چار سالوں سے ضم شدہ اضلاع میں بارودی سرنگوں کی صفائی کا عمل تیزی سے جاری ہے اور اب تک 30 ہزار سے زیادہ سرنگوں کو صاف کیا چکا ہے۔ ان کے مطابق اس وقت تمام ضم شدہ اضلاع اور خیبر پختونخوا کے چند اضلاع میں کل 84 ٹیمیں بارودی سرنگوں کی صفائی کے مہم میں مصروف عمل ہیں جن میں سب سے زیادہ شمالی اور جنوبی وزیرستان کے اضلاع میں کام کررہی ہیں۔

حال ہی میں چارج سنبھالنے والے پشاور کے نئے کورکمانڈر لیفٹنینٹ جنرل نعمان محمود نے اگلے مورچوں کے اپنے پہلے دورے میں شمالی اور جنوبی وزیرستان میں بارودی سرنگیں صاف کرنے والی ٹیموں میں مزید اضافہ کرنے کے احکامات بھی جاری کیے ہیں۔

یاد رہے کہ لیفٹنینٹ جنرل نعمان محمود اس سے پہلے میران شاہ کے جی آو سی بھی رہ چکے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ نئے کور کمانڈر کو ضم شدہ قبائلی اضلاع کے رسم و رواج اور روایات سے بھی واقفیت حاصل ہے۔  

قبائلی نوجوانوں کی تنظیم پشتون تحفظ موومینٹ ضم شدہ اضلاع میں بارودی سرنگوں کے دھماکوں میں عام شہریوں کی ہلاکتوں پر سخت احتجاج کرتی رہی ہے۔ گذشتہ سال جب پی ٹی ایم کی تنظم وجود میں آئی تو ان کے چار اہم مطالبات میں سے ایک یہ مطالبہ بھی شامل تھا کہ سابق فاٹا سے بارودی سرنگوں کا فوری طورپر خاتمہ کیا جائے جس کے بعد صفائی کی مہم میں تیزی لائی گئی تھی۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان