میڈیا کی جنگ، پاکستان کو بھارت سے سبقت

افواج پاکستان کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور اور ان کے ادارے آئی ایس پی آر کے بارے میں آئے دن ٹوئٹر پر ٹرینڈ بنتے رہتے ہیں مگر ان ٹرینڈز کی گونج صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور اور  فوج کےسابق ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ  (تصاویر: اے ایف پی)

معیشت ہو یا میدان جنگ، پاکستان اور بھارت کے درمیان مقابلہ ہر وقت جاری رہتا ہے۔ لیکن بظاہر میڈیا کی جنگ ایسا شعبہ ہے جس میں پاکستان کو بھارت پر سبقت حاصل ہے۔

افواج پاکستان کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور اور ان کے ادارے انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے بارے میں آئے دن ٹوئٹر پر ٹرینڈ بنتے رہتے ہیں مگر ان ٹرینڈز کی گونج صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں، ہمسایہ ملک بھارت میں جنرل آصف کے کام کے معترفین کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔

حال ہی میں ایک ریٹائرڈ بھارتی جنرل نے جنرل آصف غفور کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو بھارت پر ’انفارمیشن وارفیئر‘ (معلومات کی جنگ) میں سبقت حاصل ہے۔

پاکستانی فوج کی انفارمیشن وارفیئر میں واضح سبقت بالاکوٹ واقعے پر نظر آئی۔ لیکن یہ سلسلہ اس سے کافی پیچھے تک جاتا ہے۔ آخر ایسا کیا ہے جو پاکستان کا عسکری میڈیا بھارت کے مقابلے میں بہتر ہے؟

آئی ایس پی آر

پاکستانی آئی ایس پی آر صرف ترجمانی ہی نہیں بلکہ کھیلوں اور انٹرٹینمنٹ کے شعبے میں بھی کام کرتا ہے۔ آئی ایس پی آر کے بینر تلے تین دہائیوں سے ٹی وی ڈراموں، فلموں اور گانوں کے ساتھ ساتھ موبائل گیم بھی بن چکی ہے۔

پاکستان میں اگرچہ نیوی اور ایئر فورس کے اپنے ترجمان بھی موجود ہیں مگر آئی ایس پی آر تینوں افواج کی ترجمانی کے لیے مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔

پچھلی ایک دہائی میں آئی ایس پی آر نے اپنی پوزیشن کو مستحکم تر کیا ہے۔ عموماً میجر جنرل رینک کے افسر کو ڈی جی آئی ایس پی آر تعینات کیا جاتا ہے مگر جنرل راحیل شریف کے دور میں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم باجوہ کو جب لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی ملی تو انہیں پھر بھی ڈی جی آئی ایس پی آر کے عہدے پر ہی رکھا گیا۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں ان کے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل راشد قریشی کی جنرل مشرف کی نظر میں اہمیت اتنی زیادہ تھی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں بھی جنرل راشد قریشی نے جنرل پرویز مشرف کا ساتھ دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

موجودہ دور میں میجر جنرل آصف غفور بھی وزیر اعظم کے ساتھ متعدد ملاقاتوں میں نظر آتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر پریس کانفرنس میں وہ ملک کو درپیش ’ففتھ جنریشن وار‘ اور میڈیا کا ذکر کرتے ہیں۔

آئی ایس پی آر ڈائریکٹوریٹ کے سوشل میڈیا ونگ میں زیادہ تر سویلین افراد کام کرتے ہیں اور ایک محتاط اندازے کے مطابق ان کی تعداد 30 سے 40 کے درمیان ہے۔ 

آئی ایس پی آر میں کام کرنے والے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ آئی ایس پی آر میں باضابطہ طور 100 کے قریب افراد کام کرتے ہیں جبکہ اگر دیگر افراد کو بھی شامل کیا جائے جو آئی ایس پی آر کی مختلف کاموں میں مدد کرتے ہیں تو یہ تعداد 500 تک پہنچ جاتی ہے۔ اس تعداد میں آئی ایس پی آر کے لیے کام کرنے والے انٹرن بھی شامل ہیں۔

ذرائع آئیکے مطابق ایس پی آر کے لیے کام کرنے والے کچھ کنٹریکٹ ملازمین گھر سے بھی کام کرتے ہیں۔ انٹرن شپ پروگرام کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ آئی ایس پی آر کے پہلے انٹرن شپ دستے میں 200 نوجوان شامل تھے۔

آئی ایس پی آر کی اس کامیابی کی وجوہات جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے پاکستانی فوج کے سابق لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب سے رابطہ کیا۔

جنرل امجد شعیب کے مطابق آئی ایس پی آر کی بھارت پر سبقت کی دو وجوہات ہیں۔ ’ایک یہ کہ پاکستان میں تینوں سروسز کی ترجمانی آئی ایس پی آر کرتا ہے، تینوں افواج ایک ہی بات کرتی ہیں اور ان میں کبھی تضاد نہیں ہوتا۔‘

انہوں نے دوسری وجہ کے بارے میں بتایا: ’جنرل راحیل شریف کے وقت سے لے کر اب تک اس محکمے کا موثر استعمال کیا گیا ہے، انہیں نئے آلات سے لیس کر دیا گیا ہے۔‘

2015 میں آئی ایس پی آر کے لیے ضروریات کے مطابق ایک نئی عمارت بھی تعمیر کی گئی تھی۔

جنرل امجد شعیب نے مزید بتایا: ’پہلے اگر کسی افسر کو آئی ایس پی آر میں بھیجا جاتا تھا تو انہیں لگتا تھا کہ ان کا کیریئر ختم ہو گیا ہے مگر اب یہاں سینیئر کیرئیر افسران کو تعینات کیا جاتا ہے۔‘

جنرل امجد شعیب سے جب پوچھا گیا کہ آئی ایس پی آر پر توجہ دینے کا فیصلہ فوج کی طرف سے دانستہ تھا تو انہوں نے کہا: ’جب احساس ہوا کہ دنیا میں انفارمیشن کی جنگ ہے اور پاکستان کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے تو ہائبرڈ جنگ کے ذریعے اور بیانیے کی اہمیت کو جانچا گیا اور اس کے پیش نظر آئی ایس پی آر پر مزید توجہ مرکوز کی گئی۔‘

انہوں نے بتایا: ’ماضی میں بھارت نے گڈ اور بیڈ طالبان کا بیانیہ پاکستان کے خلاف بنایا تھا جس پر دنیا بھر میں پاکستان کو نقصان ہوا اور پھر اس کے بعد پاکستان نے مختلف آپریشنز اور انفارمیشن وارفیئر کے ذریعے اسے کاؤنٹر کیا۔‘

مثال کے طور پر ’موجودہ ڈی جی آئی ایس پی آر آصف غفور کے ٹویٹس کافی بروقت ہوتے ہیں اور وہ کسی بھی بھارتی لیڈر کو برجستہ جواب دے دیتے ہیں جس سے پاکستان کو بیانیے میں پہل ملتی ہے۔‘

جنرل امجد شعیب کے مطابق: ’بھارتی بیانات کو آئی ایس پی آر باریک بینی سے مانیٹر کرتا ہے۔‘

آئی ایس پی آر کے سابق ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل اطہر عباس نے انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار جویریہ حنا کو اس حوالے سے بتایا: ’ٹریک 2 سفارت کاری میں سینیئر بھارتی ریٹائرڈ فوجی افسران نے پاکستانی فوج کی تعلقات عامہ کی تعریف کی اور خواہش ظاہر کی کہ میرے جیسا ترجمان بھارت کے پاس بھی ہو۔‘

جنرل اطہر عباس نے مزید کہا کہ 2010 میں بھارتی میڈیا کا وفد پاکستان تشریف لایا تو وفد کے ایک رکن نے انہیں کہا کہ ’آپ جیسے سینیئر افسر کو دیکھ کر اندازہ ہے کہ ایسے سینیئر افسر کو پیدا کرنے والا نظام کیسا ہو گا۔‘

جنرل اطہر عباس کا کہنا تھا: ’ہمارے دشمن کی طرف سے ایسے بیانات آنا منہ بولتا ثبوت ہیں۔‘

بھارتی فوج کا ایڈیشنل ڈائریکٹوریٹ جنرل برائے اطلاعاتِ عامہ

پاکستان کی طرح بھارتی افواج بھی اپنی وزارت دفاع کے ماتحت کام کرتی ہیں۔ بھارت کی وزارت دفاع کا ایک مرکزی ترجمان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ہر فوج (بری، بحری، فضائی) کا اپنا ترجمان بھی ہے۔

بھارتی بری فوج میں ایڈیشنل ڈائریکٹوریٹ جنرل برائے اطلاعات عامہ (اے ڈی جی پی آئی) ملٹری انٹیلی جنس کے ماتحت کام کرتا ہے اور اس کا مقصد فوج کی تعلقات عامہ، میڈیا مانیٹرنگ، اطلاعات کی ترسیل، تشہیر اور فوج کے تاثر اور ساکھ کی منیجمنٹ کرنا ہے۔

پاکستان کی طرح بھارت میں بھی میجر جنرل کے رینک کا افسر اس ڈائریکٹوریٹ کی سربراہی کرتا ہے لیکن کتنے لوگوں کو پاکستان میں ان کا نام معلوم ہے؟ شاید بہت کم اور اس کی وجہ شاید ان کا پاکستانی میڈیا میں زیادہ ذکر نہ ہونا ہے۔ کچھ لوگوں کے مطابق شاید ان کے بیانات کی بھارت میں بھی میڈیا جنگی صورت حال کے علاوہ زیادہ کوریج نہیں کرتا ہے۔ بھارتی فوج کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جائیں تو آپ کو ان کے ترجمان کا نام اور ان کی تصویر بہت مشکل سے ملے گی۔

یہاں یہ بات دلچسپ ہے کہ میجر جنرل رینک کا افسر شعبے کا سربراہ تو ہوتا ہے مگر فوج کا باضاطہ ترجمان جونیئر افسر کو لگایا جاتا ہے جو کہ عموماً کرنل کے عہدے کا ہوتا ہے۔

میجر جنرل کی معاونت ایک ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کرتا ہے جبکہ ڈائریکٹوریٹ کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ’میڈیا ریلیشنز‘ اور ’انفارمیشن آپریشنز‘.

پاکستانی آئی ایس پی آر کی طرح بھارتی ڈائریکٹوریٹ کا ٹوئٹر، فیس بک اور یوٹیوب اکاؤنٹ بھی ہے۔ مرکزی ٹوئٹر اکاؤنٹ کے علاوہ بھارتی افواج کی مختلف کور اور کمانڈ کے بھی اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ موجود ہیں۔

انفارمیشن وارفیئر اور آئی ایس پی آر کی سبقت

بالاکوٹ واقعے کے بعد بھارت کو انفارمیشن وارفیئر کے شعبے میں اپنی کمزوری کا اندازہ ہوا تھا۔ واقعے کے دس دن بعد ہی بھارتی وزارت دفاع نے ’انفارمیشن وارفیئر برانچ‘ بنانے کا اعلان کیا تھا۔ بھارتی وزارت دفاع نے اس وقت کہا تھا کہ ’مستقبل کے میدان جنگ، ہائبرڈ وارفیئر اور سوشل میڈیا کو مد نظر رکھتے ہوئے نئی برانچ کو ڈائریکٹر جنرل انفارمیشن وارفیئر کے ماتحت رکھا گیا ہے۔‘

افواج پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ کی کارکردگی پر بھارتی حلقوں کے موقف کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے بھارتی فوج کے سابق لیفٹیننٹ جنرل ستیش دعا سے بات کی، جن کا کہنا تھا: ’پاکستان کی کارکردگی اتنی اچھی ہے کہ اطلاعات کے شعبے کے ذریعے پاکستان نے میدان جنگ کی اپنی خامیوں کو اچھے طریقے سے چھپایا ہے۔‘

لیفٹیننٹ جنرل (ر) ستیش دعا نے کہا کہ افواج پاکستان کا شعبہ تعلقات عامہ کافی موثر ہے اور ’اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں فوج کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں افواج کا سیاست اور گورننس میں بہت اہم کردار ہے جبکہ بھارت میں ایسا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں میڈیا اور فوج کا تعلق ایک دوسرے سے ٹکراتا ہے کیونکہ ’میڈیا کا کام ہر چیز جاننا ہے جبکہ فوج خفیہ طریقے سے کام کرتی ہے۔‘

بھارتی افواج کے تعلقات عامہ کی بہتری کے حوالے سے ان سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ چاہیں گے کہ ’بھارتی افواج کی تعلقات عامہ کا شعبہ زیادہ تیز اور برق رفتار ہو جیسے آپ (آئی ایس پی آر) کرتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ بھارتی افواج کو تعلقات عامہ کے حوالے سے کھل کر سامنے آنا ہو گا۔ ’آج اگر آپ بروقت معلومات نہیں دیں گے تو آپ گیم ہار جائیں گے۔‘

بی بی سی کے پاکستان میں صحافی سکندر کرمانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ پلوامہ/بالاکوٹ واقعے کے بعد دیکھیں تو آپ کو واضح نظر آئے گا کہ پاکستان نے انفارمیشن وارفیئر کے ذریعے بیانیے میں سبقت حاصل کر لی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان فوج کے پاس اطلاعات کے حوالے سے موثر مشینری موجود ہے جس کے بارے میں کچھ ناقدین کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

سکندر کرمانی کے مطابق جب وہ بین الاقوامی قارئین کے لیے خبر بناتے ہیں تو اس میں میجر جنرل آصف غفور کے لیے جب ’ترجمان افواج پاکستان‘ کا عہدہ استعمال کرتے ہیں تو ان کا یہ عہدہ ان کے اثر و رسوخ کی صحیح ترجمانی نہیں کرتا کیونکہ ان کا پاکستان کی سیاست میں اہم کردار ہے۔

بھارتی فوج فلمیں کیوں نہیں بناتی؟

افواج پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ نے پچھلی تین دہائیوں میں کافی ڈرامے اور گانے پیش کیے ہیں جبکہ فلموں میں معاونت بھی کی ہے۔ پاکستان کے علاوہ امریکی سی آئی اے کے ہالی وڈ پر اثر پر کئی مضامین لکھے جا چکے ہیں مگر بھارتی افواج بالی وڈ فلموں کی پیشکش میں کبھی بلاواسطہ طور پر سامنے نہیں آئے۔ یہاں یہ بات دلچسپ ہے کہ بھارتی فوج کے ایڈیشنل ڈائریکٹوریٹ جنرل برائے اطلاعات عامہ کے مینڈیٹ میں فوج کے تاثر، ساکھ اور تشہیر کی ذمہ داریاں درج ہیں۔

اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے بھارتی فوج کے سابق لیفٹیننٹ جنرل ستیش دعا سے پوچھا کہ بھارتی افواج فلمیں اور ڈرامے بنانے میں پیش پیش کیوں نہیں تو ان کا کہنا تھا کہ بھارتی افواج وطن پرستی ابھارنے والی فلموں میں معاونت ضرور کرتی ہے مگر ان فلموں کی پہل اور پیشکش نجی فلم پروڈیوسر ہی کرتے ہیں۔

انہوں نے ماضی کی فلموں کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ ’حقیقت‘، ’بارڈر‘ اور ’ایل او سی‘ جیسی فلموں کی تیاری میں بھارتی فوج نے نجی پروڈیوسروں کی مدد کی تھی۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے فلموں اور ڈراموں کی پیشکش پر ان کا کہنا تھا: ’پاکستانی افواج دیگر کاروبار بھی کرتی ہے مگر ہماری ایسی کوئی پالیسی نہیں ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے یہی سوال دہلی میں موجود بھارتی صحافی اترن داس گپتا سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ اس کی دو وجوہات ہیں: ’پہلی وجہ یہ کہ فوج کا یہ کام نہیں کہ وہ خود اپنے کاموں کی تعریف و توصیف کرے یا پروپیگینڈا کا حصہ بنے۔ دوسری وجہ یہ کہ بالی وڈ، جو کہ بھارت کی سافٹ پاور کا اہم ترین جزو ہے، خود ہی وطن پرستی کے جذبات ابھارتا رہتا ہے اور کبھی کبھی پرجوش ہو کر طبلِ جنگ بھی بجا دیتا ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین