’جب ہندو مسلم راضی، تو کیا کرے گا نازی‘

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین انتہائی ذہانت سے مختلف مکالموں اور مخفف الفاظ کا استعمال کر کے اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔

بھارت میں وزیراعظم نریندر مودی کے شہریت کے متنازع قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے والے لوگ اپنے غصے کے اظہار کے لیے پاپ ثقافت اور تاریخ دونوں سے کام لے رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے بھارت میں نیٹ فلکس پر دکھائی گئی سیریز کے مشہور مکالموں سے لے کر ہٹلر تک، پسندیدہ مخفف الفاظ کا ہوشیاری سے استعمال کیا جا رہا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بھارتی شہریت کے ترمیمی ایکٹ کے تحت ہمسایہ ملک پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں مسائل کا شکار اقلیتوں کے لیے بھارتی شہریت کے حصول میں آسانی پیدا کی گئی ہے، تاہم مسلمانوں کو یہ رعایت نہیں دی گئی۔ ناقدین کو ڈر  ہے کہ اس اقدام سے بھارت میں دستاویزات نہ رکھنے والے 20 کروڑ مسلمان شہریوں کے نیشنل رجسٹر سے نام خارج ہو جانے کے بعد بےوطن ہو جائیں گے۔

تاہم مودی سرکار اس کی تردید کرتی ہے اور اس کا موقف ہے کہ شہریت کے قانون میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ترمیم کی گئی ہے لیکن نئے قانون کے خلاف دو ہفتے سے مظاہرے جاری ہیں جو اکثر پرتشدد ہو جاتے ہیں۔ ان مظاہروں میں اب تک 27 افراد مارے جا چکے ہیں۔ عسکری تنظیم آر ایس ایس نے بھی گذشتہ روز حیدرآباد میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا، جس کا مقصد حکومتی اقدام کی حمایت تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مظاہرین نے ایک کتبے پر  ٹیلی ویژن سیریز ’گیم آف تھرونز‘ کے معروف مکالمے ’سردیاں آ رہی ہیں‘ کو ’شہریوں کا قومی رجسٹر آ رہا ہے‘ کے ساتھ بدل دیا ہے، جب کہ ’گیمز آف تھرونز‘کے پوسٹر پر مودی کی بلیک اینڈ وائٹ تصویر ایک مجرم کے طور پر لگائی گئی ہے۔

گیمز آف تھرونز سے متاثر کچھ مظاہرین نے اپنے پوسٹروں میں وزیراعظم نریندرمودی اور وزیر داخلہ اَمِت شاہ کا حوالہ دیتے ہوئے ’مودی اور اَمِت شاہ کے لیے سردیاں آ رہی ہیں‘ کے الفاظ بھی لکھے ہیں۔ اس کے علاوہ ان الفاظ میں گیمز آف تھرونز کی ولن کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ ’مودی آپ سرسی کو اچھا بنا کر پیش کر رہے ہیں۔‘

ایک کتبے میں ’نیٹ فلکس اور موج‘ کے الفاظ کی جگہ ’نیٹ فلکس اور جہنم‘ لکھا گیا ہے۔

امریکی اداکارہ لنزے لوہن کی فلم ’مین گرلز‘ کے مقبول مکالمے کو ’شہریوں کے قومی رجسٹر کو ہونے سے روکو‘ کے الفاظ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

’ہٹلر کی طرح مرو‘

مظاہرے میں شامل خاتون اینجلی سنگھ جنہوں نے ’ہندو قوم نہیں ملی، غلطی 404‘ کے الفاظ والا پوسٹر اٹھا رکھا تھا، نے کہا کہ مودی اور ان کی حکومت نے اپنے ہندو ایجنڈے کے ساتھ زیادہ جارحانہ انداز میں آگے بڑھنا شروع کر دیا ہے۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’اس لیے ہمارا پیغام زیادہ واضح اور براہ راست ہو چکا ہے۔‘

برطانوی راج کے خلاف آزادی کی جدوجہد کے دوران مقبول ہونے والا ’انقلاب زندہ باد‘ جیسا مقبول نعرہ بہت سے مظاہروں میں گونجتا ہے۔ اس کے ساتھ ’اگر آپ ہٹلر جیسے کام کرتے ہیں، تو مریں گے بھی اسی کی طرح‘ کے نعرے کی صدائیں بھی بلند ہو رہی ہیں۔

ایک پوسٹر پر درج تھا، ’جب ہندو مسلم راضی، کیا کرے گا نازی،‘ جبکہ ایک پر لکھا تھا: ’کیا ہٹلر آج بھی زندہ ہے؟‘

ان پوسٹروں میں مودی اور اَمِت شاہ کے مزاحیہ خاکوں کو نازی وردی میں دکھایا جاتا ہے۔ عام ہونے والے ایک پوسٹر میں ہٹلر کو دکھایا گیا جنہوں نے بچے کی شکل میں مودی کو ہاتھوں پر اٹھا کر بلند کر رکھا ہے۔ دیواروں پر بھی ایسی ہی تصاویر بنائی گئی ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی یہ تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہیں۔

نئی دہلی میں ہونے والے مظاہرے میں شریک ایک طالبہ کرن ملہوترہ نے اے ایف پی کو بتایا: ’جو کچھ بھی آف لائن ہوتا ہے اسے آن لائن کر دیا جاتا ہے۔ ہمیں اپنے پیغام میں عالمگیر پیغام دینا ہو گا۔ امریکہ اور یورپ میں بیٹھا کوئی شخص شہریت کے بھارتی قانون میں تبدیلی کو سمجھ نہیں پائے گا لیکن مودی کے ہٹلر کے ساتھ موازنے سے معاملہ سادہ ہو جائے گا۔‘

ملہوترہ کے ہاتھوں میں موجود کتبے پر بنے مودی کے کارٹون کے بازو پر نسلی برتری کا نشان ’سواستیکا‘ بنا دکھائی دے رہا تھا۔

بہت سے مظاہرین نے 1980 کی دہائی کے ٹیلی ویژن جِنگلز کو نئی شکل دے دی ہے تاکہ مظاہروں میں گزرے ہوئے وقت کی یاد دلائی جا سکے۔ کچھ مظاہرین ڈھولک کی تھاپ پر’مودی مردہ باد‘ گاتے ہیں یا بھارتی آئین کی ابتدائی سطور پڑھی جاتی ہیں۔

دوسری پسندیدہ باتوں میں امریکی شہری حقوق کے ترانے ’ہم جیتیں گے‘ کی ہندی شکل اور اردو کی انقلابی نظمیں شامل ہیں۔

مظاہرے میں شامل ایک خاتون ایراسین نے کہا کہ ’اب پیغام کو زیادہ واضح اور براہ راست ہونا چاہیے۔‘

ان  کے ہاتھوں میں موجود پوسٹر میں تحریک آزادی کے سرکردہ رہنما گاندھی  کو ان کی خود نوشت ’سچ کے ساتھ میرے تجربات‘ کے ساتھ جب کہ مودی کو ایک کتاب کے ساتھ دکھایا گیا ہے جس پر’جھوٹ کے ساتھ میرے تجربات‘کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں۔

حیدرآباد میں شام کے شہر حمص کا منظر

بہت سے لوگ پہلی بار احتجاج کر رہے ہیں۔ انہیں ہانگ کانگ، چلی اور عرب سپرنگ کے مظاہروں سمیت چھ مسلمان ممالک کے شہریوں پر سفری پابندیاں لگانے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف احتجاج سے تحریک ملی ہے۔

پیشے کے اعتبار سے انٹیریئر ڈیزائنر میناکشی رائے نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’عوامی طاقت تبدیلی لا سکتی ہے۔ جمہوریت اور آئین جیتیں گے۔ آمروں کو نکال باہر کیا جائے گا۔‘ ان کے پوسٹر پر ’قیصر جائے گا، روم قائم رہے گا‘ کے الفاظ درج تھے۔

مظاہرین کے دوسرے پوسٹر موضوعاتی نوعیت کے ہیں۔ ایک پر لکھا گیا ہے کہ پی ایم دو، پی ایم ڈھائی سے زیادہ برے ہیں۔ اس جملے میں بھارت میں آلودگی اور سموگ میں ڈھکے شہروں کا حوالہ دیا گیا ہے۔

ایک سرگرم کارکن سٹیوروچا کے مطابق نعروں اور پلےکارڈز میں زیادہ جاندار لیکن جارحانہ زبان استعمال کی گئی ہے۔ بعض جملے فحش ہیں، بعض میں مذاق اڑیا گیا ہے اور کچھ طنزیہ ہیں۔ ان پوسٹروں میں سب کچھ ہے۔ گرافکس، الفاظ، موسیقی، شاعری اور غصہ بھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا