افغان ’جہاد‘ کی کہانی صحافی کی زبانی

انڈپینڈنٹ اردو نے افغان ’جہاد‘ کی اس خصوصی سیریز میں ایک ایسے صحافی سے بات کی ہے جو اس وقت پشاور میں مقیم تھے اور افغان جہاد کی کوریج کرنے کے لیے افغانستان کے دورے بھی کرتے تھے۔

(سوویت یونین کی فوجوں نے 27 دسمبر 1979 کو افغانستان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ انڈپینڈنٹ اردو نے اس موقعے پر ایک خصوصی سیریز کا آغاز کیا ہے، جس میں آپ آنے والے دنوں میں اس تاریخ ساز واقعے کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں تحریریں اور تجزیے پڑھیں گے۔)

افغانستان میں روسی افواج کے داخلے اور اس کے بعد اسی دہائی کے اواخر میں انخلا اور افغان ’جہاد‘ کے خاتمے کے 40 سال پورے ہو گئے۔ جس کے اثار اب بھی افغانستان اور پاکستان میں نمایاں ہیں۔ افغان ’جہاد‘ کی وجہ سے لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان آکر مہاجر بن گئے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں  لوگ اس میں ہلاک ہو گئے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے افغان جہاد کے اس خصوصی سیریز میں ایک ایسے صحافی سے بات کی ہے جو اس وقت پشاور میں مقیم تھے اور افغان جہاد کی کوریج کرنے کے لیے افغانستان کے دورے بھی کرتے تھے۔ انہوں نے اس وقت کی چند اہم کہانیوں اور وہاں کے حالات کے حوالے سے گفتگو کی ہے۔

سینیئر صحافی شمیم شاہد نے بتایا کہ وہ پہلی مرتبہ 1987 میں افغانستان کوریج کی غرض سے گئے تھے جہاں پر عام افغانیوں اور ’مجاہدین‘ سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی حالت دیکھی۔

شمیم شاہد نے بتایا کہ انھوں نے ایک ایک خبر اس حوالے سے بریک کی تھی کہ ’مجاہدین‘ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ انھوں نے افغانستان کے 95  فیصد علاقے پر قبضہ کیا ہے اور پانچ فیصد علاقہ سابق سویت یونین کی حمایت یا اس وقت کی افغان حکومت کے قبضے میں ہے۔

انھوں نے بتایا کہ پاکستانی میڈیا میں ان دعوں کی خبریں آنا شروع ہوگئیں  لیکن 1989 میں طالبان نے ایک عبوری حکومت قائم کی جس کے صدر پروفیسر مجددی تھے اور وزیر اعظم پروفیسر سیعاف تھے اور اسی طرح دیگر عہدیدار چنے گئے۔

’ان کا ایک اجلاس افغانستان کے خوست علاقے میں عبوری حکومت بننے کے بعد منعقد ہوا اور جب وہاں پر ہم کوریج کے لیے گئے تو پتہ چلا کہ وہ غاروں میں رہتے تھے اور وہ پاکستان کے سرحدی علاقوں پر واقعہ تھا جس سے پتہ چلا کہ ان کا یہ دعویٰ کے 95 فیصد علاقے پر قبضہ غلط ثابت ہوا۔‘

اس وقت  ذرئع ابلا غ کے ذرائع جیسا کہ وٹس ایپ، ٹیلیگرام یا دیگر کییمیونیکیشن ایپس موجود نہیں تھیں، تو ’مجاہدین‘ کس طرح میڈیا سے رابطہ کرتے تھے، اس کے جواب میں شمیم شاہد نے بتایا کہ ’مجاہدین‘ اور پاکستان میں ان کے حمایت یافتہ لوگوں کی جانب سے پریس ریلیز بھجوائے جاتی تھی جن کی کوئی تصدیق نہیں کر سکتا تھا اور نہ کسی قسم کی کراس چیکنگ تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شمیم شاہد نے بتایا کہ جب پشاور میں انگریزی اخبار فرنٹئیر پوسٹ اور مسلم کا اجرا ہوا تو فرنٹئیر میں، میں بطور رپورٹر کام کرتا تھا اور رحیم اللہ یوسفزئی دوسرے انگریزی روزنامہ مسلم کے ایڈیٹر بن گئے تو ’ہم نے خبروں کی فیکٹ چیکنگ کرنا شروع کی۔‘

انھوں نے بتایا کہ اس دوران ’ہم نے ریڈیو کابل، بی بی سی اور ریڈیو انڈیا مانیٹر کرنا شروع کیا تو یہاں آنے والے پریس ریلیزوں کی ہم نے نفی کرنا شروع کی کیونکہ ہم پریس ریلیز میں آئی معلومات کی فیکٹ چیکنگ کرتے تھے اور اس پر بہت زیادہ لوگ جس میں ’مجاہدین‘ بھی شامل تھے ناراض بھی ہوتے تھے۔

شمیم شاہد کے مطابق ’مجاہدین‘ کی کوریج کے لیے مغربی میڈیا کے نمائندے بھی آیا کرتے تھے اور اس میں جاسوسی کی غرض سے بھی لوگ آیا کرتے۔ ’ہم نے دیکھا کہ پشاور میں ایک ادارہ ایسا بھی تھا جس میں اسرائیلی لوگ بھی موجود تھے اور اس کی تصدیق افغانستان کے حزب اسلامی نے بھی بعد میں کی تھی۔‘

انہوں نے افغانستان دورے کے بارے میں بتایا کہ وہاں پر انہوں نے عرب بھی دیکھے، افغان انتہا پسند بھی دیکھے اور مجاہدین بھی دیکھے۔‘

ان کے مطابق 1987 میں وہ افغانستان کی پارلیمینٹ یا لویہ جرگہ کے ایک اجلاس کی کوریج کے لیے گئے تھے جس میں ڈاکٹر نجیب کو باقاعدہ صدر منتخب کیا گیا اور ’جب ہم جا رہے تھے تو ہم پر طورخم سے آگے ایک راکٹ حملہ کیا گیا تھا۔ ایسے حملے بہت عام تھے۔‘

انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں کچھ ادارے ایسے تھے جو ایسے صحافیوں کو افغانستان کوریج کے لیے نہیں چھوڑتے تھے کیونکہ ان کو ڈر تھا کہ وہ سچ پر مبنی خبریں لائیں گے۔ انھوں نے بتایا کہ مجاہدین کے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دفاتر تھے جہاں سے وہ وائرلیس کے ذریعے رابطہ کر کے میڈیا میں اپنی خبریں چلاتے تھے۔

ایک اور واقعہ سناتے ہوئے شمیم شاہد نے بتایا کہ 1988 میں امریکہ کے جینیوا معاہدے کے بعد افغان حکومت نے اس وقت افغانستان کے کچھ علاقے خالی کروائے اور سب سے پہلے کنڑ میں علاقہ خالی کرایا گیا اور’ہم سب سے پہلے وہاں پر گئے تھے۔‘

انھوں نے بتایا کہ جب وہاں پر ہم گئے تو وہاں سابق سویت یونین نے کچھ مکانات تعمیر کیے تھے تو ہم نے دیکھا اس کے دروازے نہیں تھے، جب ہم نے اس وقت کے مجاہدین کمانڈر سے اس بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ یہاں پر دھماکے ہوئے ہیں اور اسی وجہ سے دروازے اکھڑ گئے ہیں۔

لیکن ’ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ اصل میں جب افغان ٹروپس نے جگہیں خالی کرائیں تو اس میں لوٹ مار شروع ہوگئی تھی اور دروازے سمیت باتھ روم کے کموڈ بھی اکھاڑ کر لے گئے تھے اور یہ ہم نے رپورٹ بھی گیا تھا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ