خبرناک کا ’مذاق‘ بننے والے رانا ہمیر سنگھ کون ہیں؟

جیو نیوز کے ایک پروگرام میں رکن صوبائی اسمبلی رانا ہمیر سنگھ کی نقل اتارنے کے خلاف صحرائے تھر میں احتجاج کیا جا رہا ہے۔

رانا ہمیر سنگھ  پہلی بار 1990 میں ایم پی اے بنے۔ (تصویر: سوشل میڈیا)

صوبہ سندھ کے صحرائے تھر میں جیو نیوز کے ایک پروگرام میں رکن صوبائی اسمبلی رانا ہمیر سنگھ کی نقل اتارنے کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ اس پروگرام میں نہ صرف رانا خاندان بلکہ پورے خطے کی ثقافت کا تمسخر اڑایا گیا ہے، لہٰذا چینل انتظامیہ کو اس پر معافی مانگنی چاہیے۔

چند دن قبل جیو نیوز کے مزاحیہ شو ’خبرناک‘  میں کامیڈین میر محمد علی (علی میر) کو رکن سندھ اسمبلی رانا ہمیر سنگھ کا خاندانی لباس پہن کر ان کی نقل اتارتے دیکھا گیا۔ ان کے ساتھ اداکارہ سوہنی نے رانا ہمیر سنگھ کی بیگم رانی کا کردار ادا کیا، جس پر تھر کے باسیوں کو غصہ ہے۔

تھر کے شاعر اور ادیب بھارو مل امرانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں معلوم ہے کہ اس پروگرام میں سیاست دانوں اور مشہور شخصیات کی نقل اتاری جاتی ہے مگر اس میں رانا خاندان کو روایتوں کو مزاح کے نام پر برا بھلا کہا گیا۔

ان کا کہنا تھا: ’مزاح اور طنز و تمسخر میں فرق ہوتا ہے۔ خبرناک انتظامیہ کو رانا خاندان کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہے ورنہ وہ ایسا شو کبھی نہ چلاتے۔ اس شو میں رانا ہمیر سنگھ کے ہنسنے کے انداز کا تمسخر اڑایا گیا، ان کی خاندانی تلوار کا مذاق اُڑانے کے ساتھ رانی کے بھی نقل اتاری گئی اور انہیں آنکھ مارتے دکھایا گیا جو ناقابل برداشت ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تھرپارکر کے ضلعی ہیڈکوارٹر مٹھی شہر میں سندھی زبان کے ٹی وی چینل ’کے ٹی این نیوز‘ سے منسلک صحافی کھاٹاؤ جانی کے مطابق مٹھی، اسلام کوٹ، چھاچھرو، ننگرپارکر اور ڈیپلو سمیت کئی شہروں میں جیو نیوز کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔

مٹھی میں ہونے والے ایسے ہی ایک احتجاجی مظاہرے میں شریک نوجوان امر رائے سنگھ راجپوت نے کہا کہ ’ایسا شو نہ صرف رانا خاندان بلکہ اس خطے کی ہزاروں سالوں کی روایت کا مذاق اڑانے کے برابر ہے۔‘ ساتھ ہی انہوں نے مطالبہ کیا کہ ٹی وی انتظامیہ فوری طور پر معافی مانگے۔

سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے بات ہو رہی ہے۔ فیس بک پر رانا بابر حسین نامی صارف نے لکھا: ’رانا صاحب پر بنائی گئی ڈمی تو سیاسی طور پر ہوسکتی ہے لیکن پھر بھی کچھ چیزوں میں احتیاط کرنی چاہیے، خاص طور پر ان کی دھرم پتنی (اہلیہ) کی ڈمی انتہائی شرم ناک اور افسوس ناک ہے، کیونکہ رانا خاندان کی خواتین اس طرح کی بےہودہ گفتگو اور ایسی گری ہوئی حرکتیں نہیں کرتیں جیسا ڈمی میں دکھایا گیا ہے۔‘

اس حوالے سے پروگرام ’خبرناک‘ کے ایگزیکٹو پروڈیوسر ذیشان حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ان کے شو کا فارمیٹ اس طرح کا ہے، جس میں مشہور شخصیات کی مزاح کے طور پر نقل اتاری جاتی ہے۔ وہ سالوں سے یہ پروگرام چلا رہے ہیں مگر انہیں پنجاب سے کبھی شکایت نہیں آئی کیوں کہ وہاں مزاح اور جگت کو سراہا جاتا ہے مگر سندھ اور خیبرپختونخوا سے اکثر لوگ مزاح پر احتجاج کرتے ہیں، یہ شاید وہاں کے کلچر کی وجہ سے ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’کچھ سال پہلے رانا ہمیر سنگھ کے ساتھ ’ایک دن جیو کے ساتھ‘ کا پروگرام ہوا جس میں ان کے ہنسنے کے انداز کے باعث ’خبرناک‘ میں ان کی ڈمی بناکر شو کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔‘

ذیشان حسین کے مطابق: ’اس شو کے بعد رانا ہمیر سنگھ نے خود ہم سے کوئی شکایت نہیں کی۔ ہمارے صحافی دوستوں نے ہمیں کہا کہ یہ کچھ زیادہ ہی ہوگیا، جس کے بعد ہم نے محسوس کیا کہ زیادتی ہوئی ہے۔ ہم نے ان کو یقین دلایا ہے کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا اور ہم رانا ہمیر سنگھ اور ان کے چاہنے والوں سے غیر مشروط معافی مانگتے ہیں۔‘

دوسری جانب رابطہ کرنے پر رانا ہمیر سنگھ کے پرسنل سیکریٹری کنول موہن لال نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس پروگرام پر رانا ہمیر سنگھ کا ردعمل تو اپنی جگہ مگر متعدد شہروں میں ان کے چاہنے والوں کی جانب سے کیا گیا احتجاج اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ لوگوں میں کتنا غصہ ہے۔‘

رانا ہمیر سنگھ سوڈھو کون ہیں؟

صحرائے تھر کے گیٹ وے کے نام سے مشہور موجودہ عمر کوٹ اور سابقہ امر کوٹ شہر سے تقریباً 15 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع خاندانی گاؤں رانا جاگیر کے رہائشی اور سندھ کے سوڈھا راجپوت خاندان کے رانا ہمیر سنگھ سوڈھو رکن سندھ اسمبلی ہیں۔

وہ پہلی بار 1990 میں ایم پی اے بنے۔ 1993 میں وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر رہے اور بلدیاتی نظام میں وہ عمرکوٹ ضلع کے نائب ناظم بھی رہ چکے ہیں۔

رانا ہمیر سنگھ راجستھان سے متصل پاکستان کے صحرائے تھر، جو موجودہ عمرکوٹ اور تھرپارکر اضلاع پر مشتمل ہے، کی تاریخی ڈھاٹ امرانو ریاست کے شاہی ٹھاکر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔

ڈھاٹ کے رہائشیوں کو ڈھاٹی کہا جاتا ہے۔ ڈھاٹ ریاست کے حکمران کو شاہی لقب ’رانا‘ کا خطاب دیا جاتا تھا۔ ہمیر سنگھ اپنے خاندان کے 26 ویں رانا ہیں۔ اگست 2009 میں ہمیر سنگھ کے والد رانا چندر سنگھ کی وفات کے بعد انہیں رانا بنایا گیا۔ موجودہ دور میں ڈھاٹ ریاست سرکاری طور پر تو موجود نہیں مگر اس کے باجود وہ خاندانی حکمرانی کی روایت کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

مقامی زبان میں ’پھینٹو‘ کے نام سے جانی جانے والی سات رنگوں کی پگڑی، رنگین قمیص، دھوتی اور تلوار ساتھ میں رکھنا جنگجو ٹھاکروں کی روایت میں شامل ہے۔

ان سوڈھا ٹھاکروں کے لیے مشہور ہے کہ وہ قول اور فعل کے پکے ہیں اور اگر کسی کو ایک بار زبان دے دیں تو مکرتے نہیں۔

رانا ہمیر سنگھ کے خاندان میں آج بھی تلوار کے ایک ہی وار سے بکرے یا بھینسے کی گردن کاٹ کر بلی دینے کی روایت موجود ہے۔

سوشل میڈیا پر موجود ایک ویڈیو میں رانا ہمیر سنگھ نے دعویٰ کیا تھا: ’24 ہزار سکوائر کلومیٹر پر پھیلی ڈھاٹ ریاست تاریخی طور پر سندھ کا حصہ رہی ہے جس میں ہندوؤں کے ساتھ مسلمان بھی شامل ہیں۔ یہاں آج بھی 50 فیصد ہندو آباد ہیں اور کسی بھی جگہ گائے ذبح نہیں کی جاتی۔‘

رانا ہمیر سنگھ کے اکلوتے بیٹے کنور کرنی سنگھ کی شادی 2015 میں بھارتی ریاست راجستھان کے دارالحکومت جے پور کی کنوٹا ریاست کے شاہی خاندان کی پدمنی راٹھور سے ہوئی، جسے بھارتی میڈیا نے بھرپور کوریج دی۔

سندھ کے راجپوت، خاندان میں شادی نہیں کرتے، یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور میں سندھ میں سوڈھا راجپوتوں کی کم آبادی کے باعث وہ بھارت جاکر شادیاں کرتے ہیں۔

رانا ہمیر سنگھ کے والد رانا چندر سنگھ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ارکان میں سے ایک تھے۔ وہ نو بار قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے رکن منتخب ہوئے۔ انہوں نے ’پاکستان ہندو پارٹی‘ کے نام سے ایک سیاسی پارٹی بھی بنائی تھی۔

رانا چندر سنگھ سابق بھارتی وزیر اعظم وی پی سنگھ کے ہم زلف تھے۔ 1989 میں جب اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تو پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے اپنے قومی اسمبلی کے مسلمان اراکین سے قرآن شریف پر حلف اٹھوایا کہ وہ وزیراعظم کے خلاف ووٹ نہیں کریں گے۔ قیادت نے جب رانا چندر سنگھ سے کہا کہ وہ ہندوؤں کی مقدس کتاب گیتا پر ہاتھ رکھ کر حلف اُٹھائیں تو انھوں نے ہنس کر کہا کہ وہ ایک راجپوت ہیں اور اگر کسی بات پر زبان دے دی تو کبھی بھی اپنی بات سے نہیں مکرتے۔

جس کے بعد تحریک عدم اعتماد کے دوران یہ ثابت ہوگیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے قومی اسمبلی کے مسلمان اراکین نے وزیراعظم کی مخالفت میں ووٹ دیا جس پر رانا چندر سنگھ نے کہا کہ مسلمان اراکین اسمبلی نے قرآن شریف پر حلف اٹھا کر انحراف کیا جب کہ وہ بغیر حلف لیے اپنی بات پر قائم رہے۔ ان کی اس بات کو ملکی سطح پر پزیرائی ملی اور انہوں نے ملک بھر میں خاصی شہرت پائی۔

بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد ہونے والے 1990 کے انتخابات میں  رانا چندر سنگھ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ بعد میں وہ وزیراعظم نواز شریف کی کابینہ میں وفاقی وزیر برائے انسداد منشیات بھی رہے۔

رانا ہمیر سنگھ کے دادا رانا ارجن سنگھ نے راجھستان میں اپنے ننھیال اور دیگر رشتے داروں کے اصرار کے باوجود 1946 کے فیصلہ کن الیکشن میں کانگریس کی بجائے پاکستان مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا اور ڈھاٹ میں ہندو اکثریت ہونے کے باوجود پاکستان ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان