جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت: ایران کا ممکنہ ردعمل کیا ہو سکتا ہے؟

ایران اپنے اہم فوجی کمانڈر کی امریکی حملے میں ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے تین ممکنہ طریقوں پر غور کر سکتا ہے۔

کچھ حلقے قاسم سلیمانی کو  ایران کیسیاستمیں آیت اللہ علی خامنہ ای کے بعد دوسرا طاقتور ترین شخص سمجھتے تھے(اے ایف پی)

 

نئے سال کا تیسرا دن شروع ہوتے ہی پہلے چند گھنٹوں میں ایران کی قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر مبنی خبروں نے ہنگامہ برپا کر دیا۔

یہ بلاشبہ ایک بڑی خبر ہے جو مشرق وسطیٰ اور دنیا کے بہت سے ممالک میں توازن بدل سکتی ہے۔

قاسم سلیمانی کا نام تقریباً دو دہائیوں سے نہ صرف ایران بلکہ دنیا کے بہت سے لوگوں کے لیے جانا پہچانا ہے۔ بہت سے مغربی خبر رساں ادارے عراق، شام، لبنان اور یمن میں فوجی کارروائیوں کے حوالے سے ان کی زندگی کی تفصیلات پر روشنی ڈال چکے ہیں۔ 

اس سارے عرصے میں ایران ان ممالک میں اپنی فوج کی موجودگی کی تردید کرتا رہا ہے اور اسے ہمیشہ اپنی فوجی انٹیلی جنس کے پردے تلے چھپاتا رہا ہے۔ ایران میں بہت سے لوگ قاسم سلیمانی کو ایک باصلاحیت فوجی اور ایران کی سرحدوں کے محافظ کے طور پر دیکھتے تھے۔

تاہم ایران سے باہر کئی ملکوں میں بہت سے حلقے ان پر شہریوں کے قتل کے الزام عائد کرتے ہیں، خاص طور پر حالیہ برسوں میں، جب شام میں بشار الاسد کی حکومت اور جنگجوؤں کے درمیان شدید جنگ ہوئی تو جنرل سلیمانی نے اس دوران بشار الاسد کو اقتدار میں رکھنے کے لیے کلیدی کردار ادا کیا۔

دوسری جانب داعش کے خلاف ان کے اقدامات اتنے موثر تھے کہ بہت سارے نقادوں نے قاسم سلیمانی کو مختلف علاقوں سے خود ساختہ دولت اسلامی کو شکست دینے کے معاملے میں ایک بااثر شخص کی حیثیت سے دیکھا۔

کچھ حلقے انہیں ایران کی سیاست میں آیت اللہ علی خامنہ ای کے بعد دوسرا طاقتور ترین شخص سمجھتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بطور فوجی ان کا شمار آیت اللہ خمینی مکتبہ فکر کے انتہائی وفادار انقلابی سپاہی اور طالب علم کے طور پر ہوتا ہے۔

ایران کے حالیہ اندرونی تنازعات کے دوران جنرل سلیمانی اور ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے درمیان جو معاملات ہوئے، اس حوالے سے ملک میں ایک خفیہ یا متوازی حکومت کی اصطلاح بھی سننے میں آئی۔

بشار الاسد کے دورہ تہران کے دوران جب ان کی ایران کے سپریم لیڈر اور جنرل سلیمانی سے ملاقات ہوئی تو جواد ظریف موجود نہیں تھے۔ تب سے کافی لوگ قاسم سلیمانی کو ملک کا خفیہ لیکن حقیقی صدر سمجھتے تھے۔

ایسا شخص جو ملک کے اہم امور میں شامل ہو اور عملی طور پر صدر اور ان کی کابینہ ملک کے اہم فیصلے اس کے بغیر نہیں کر سکتے۔

قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد اپنے پہلے اور فوری رد عمل میں ایرانی فوج نے بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ ایران نے تین روزہ عوامی سوگ کا اعلان کرتے ہوئے ’سخت انتقام‘ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ 

 اس معاملے پر تہران کا سخت ردعمل غیر متوقع نہیں اور ایسے میں جس طرح کا بھی ردعمل دکھایا گیا ، ایک بات طے ہے کہ اس سے خطے کا توازن بگڑے گا۔

ابتدائی امکانات میں سے ایک یہ ہو سکتا ہے کہ عراقی سرزمین پر موجود امریکی اڈوں میں سے کسی پر حملہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں امریکی فوج، جس نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر اس واقعے کی منصوبہ بندی کی تھی، نے یقینی طور پر احتیاطی تدابیر پہلے ہی اختیار کر لی ہوں گی۔ 

امریکی محکمہ دفاع کے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پینٹاگون نے حالیہ دنوں میں عراق میں تعینات فوجیوں کی تعداد میں سینکڑوں نئے فوجیوں کا اضافہ کیا ہے۔

 لہٰذا جب ایک طرف ایرانی حکومت ان حملوں سے چونک گئی ہے اور دوسری طرف مخالف فریق پوری طرح سے تیار ہے، تو کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ ایرانی فوج عراق میں امریکی ٹھکانوں پر ممکنہ حملے میں کس حد تک کامیاب ہو سکے گی۔

امریکی کارروائی کا دوسرا ممکنہ جواب خطے میں اس کے اتحادیوں پر حملے کی صورت میں ہو سکتا ہے۔

ایران کے انتقام اور عرب ریاستوں پر حملوں کے امکان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ 

تاہم دوسری طرف کچھ تجزیہ کار ایرانی حملے کے امکان کو مسترد بھی کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں ایرانی حکومت امریکہ سے بدلہ لینا چاہتی ہے اور عرب ممالک پر ممکنہ حملے بالواسطہ انتقام کہلائے جا سکتے ہیں جو تہران کا مقصد ہرگز نہیں۔

بہت سے لوگ دلیل دے رہے ہیں کہ امریکہ اپنی سرزمین پر محدود حملوں کی صورت میں بھی شدید رد عمل دے گا اور یقیناً یہ وہ غلطی ہو گی جو تہران ہرگز نہیں کرے گا۔

ان تمام امکانات سے زیادہ امکان یہ ہو سکتا ہے کہ ایران اسرائیل پر حملہ کر دے۔ اس سلسلے میں ہم اسرائیل اور ایران کی 40 سالہ پرانی دشمنی کو بھی نہیں بھول سکتے۔

دونوں ملک کئی بار ایک دوسرے کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی خواہش کا اظہار کر چکے ہیں۔ خاص طور پر اب ایسے حالات میں جب ڈیبکافائل انٹیلی جنس ڈیٹا بیس کی طرف سے جاری کردہ تازہ ترین خبروں میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسرائیلی انٹیلی جنس نے اس ساری کارروائی میں معاونت کی ہے۔

اگر ایران اسرائیلی سرزمین پر حملہ بھی کرتا ہے تو یہ بات طے ہے کہ امریکہ اپنے پرانے دوست اور اتحادی کا ساتھ ہرگز نہیں چھوڑے گا۔ وہ اسرائیل کے تحفظ کی خاطر کسی قسم کی فوجی مدد سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔

اگرچہ اسرائیل نے حالیہ برسوں میں اپنی دفاعی صلاحیت میں کافی اضافہ کیا ہے اور اپنا دفاع یا میزائلوں کی ڈھالیں پورے ملک کے اہم حصوں پر تعمیر کی ہیں، تاہم اس کے برخلاف اگر مستقبل میں امریکہ ایران کے ساتھ کسی معاہدے پر پہنچنے کا خواہاں ہے تو بھی صورت حال غیر واضح قرار دی جا سکتی ہے۔

یاد رہے کہ گذشتہ برسوں کے دوران ایرانی حکومت لبنان میں حزب اللہ گروپ کی ایک بڑی حمایتی رہی ہے اور اس نے ہمیشہ سیاسی تنازعات میں اسرائیل کو لبنان سے راکٹ لانچ کر دینے کی دھمکی بھی دی ہے۔

تاہم، یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ تہران نے ایران عراق جنگ کے بعد میزائل ٹیکنالوجی میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ کئی تجزیہ کاروں کے مطابق ایرانی فوج بالخصوص پاسداران انقلاب نے میزائل طاقت میں سرمایہ کاری کرکے فضائی عسکری قوت میں اپنی کمزوری کی تلافی کی ہے۔ 

یہی وجہ ہے کہ اکثر ایران اپنے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں سے دوسرے ملکوں کو دھمکیاں دیتا رہتا ہے۔

 آخرکار مشرق وسطیٰ ایک بار پھر آگ کے دہانے پر ہے۔ لیکن، اس دوران یہ بھی  فراموش نہیں جا سکتا کہ ایران کے لیے روس کی حمایت اسی موڑ پر متوقع ہوگی۔ مستقبل قریب میں روس کی طرف سے اس معاملے پر ایران کی حمایت سیاسی توازن کو ایران کے حق میں بڑی حد تک بدل سکتی ہے۔

اگر روس ایران اور امریکہ کے درمیان ثالثی کا کردار ادا نہیں کرنا چاہتا تو اسے یقینی طور پر ایران اور امریکہ کے درمیان آگ مزید پھیلنے کا انتظار کرنا چاہیے۔


نوٹ:  پگاه بنی‌ ہاشمی کا یہ مضمون انڈپینڈنٹ فارسی پر شائع ہوا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا