اغواکار بچے کی آنکھوں میں ایلفی ڈال کر سڑک پر چھوڑ گئے

پولیس کے مطابق ابھی اس بات کا تعین نہیں کیا گیا ہے کہ یہ اغوا برائے تاوان ہے یا کوئی انتقامی نوعیت کا کیس ہے۔ صارم برنی کا کہنا ہے کہ ٹرسٹ کی جانب سے بچے کی آنکھوں کا مکمل علاج کروایا جائے گا۔

ڈاکٹروں کی جانب سے بتایا گیا کہ بچے کی آنکھوں میں ایلفی ڈالی گئی ہے اور بر وقت علاج نہ ہوتا تو اس کی آنکھیں ضائع ہوسکتی تھیں۔ بچے کا علاج کروانے کے بعد پولیس نے اسے صارم برنی ٹرسٹ کے شیلٹر ہوم میں داخل کروا دیا۔ (تصویر: صارم برنی ٹرسٹ)

کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری سے گذشتہ روز چار سالہ عبدالحنان کو اغواکاروں نے اس کے گھر کے پاس سے اغوا کیا جب وہ ناشتے کے لیے اپنی امی سے پیسے لے کر باہر کچھ خریدنے گیا تھا۔

اغواکاروں نے سفاکانہ طریقے سے بچے کی آنکھوں میں انتہائی سخت نوعیت کی گِلو ’ایلفی‘ ڈال کر اسے کورنگی نمبر پانچ کی سڑک پر چھوڑ دیا۔

فلاحی ادارے صارم برنی ٹرسٹ کے شیلٹر ہوم میں عبدالحنان کی والدہ اسے ڈھونڈتے ہوئے پہنچیں، جہاں ان کی ملاقات اپنے بیٹے سے ہوئی۔ اب حنان اپنی والدہ اور باقی بہن بھائیوں کے ساتھ ہے اور انکھوں کی صفائی ہونے کے بعد پہلے کی طرح دیکھ سکتا ہے۔

عوامی کالونی کورنگی نمبر چار تھانے کے انسپکٹر ہمایوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’چار سالہ حنان کو صبح آٹھ بجے کے قریب ابراہیم حیدری سے اغوا کیا گیا تھا جہاں اس کی رہائش ہے۔ گذشتہ رات نو بجے حنان کو کچھ لوگوں نے کورنگی نمبر پانچ کی سڑک پر دیکھا جہاں وہ بچہ اکیلا کھڑا تھا، اس کی آنکھیں بند اور سوجی ہوئی تھیں اور وہ مسلسل رو رہا تھا۔

لوگوں نے بچے کا نام پوچھنے کی کوشش کی تو اس نے اپنا نام نہیں بتایا۔ نو بجے کے قریب بچے کو تھانے لایا گیا جہاں سے اسے ہسپتال لے کر گئے۔ تب ڈاکٹرز کی جانب سے بتایا گیا کہ بچے کی آنکھوں میں ایلفی گِلو ڈالی گئی ہے اور بر وقت علاج نہ ہوتا تو اس کی آنکھیں ضائع ہوسکتی تھیں۔ بچے کا علاج کروانے کے بعد ہم نے اسے صارم برنی ٹرسٹ کے شیلٹر ہوم میں داخل کروا دیا۔‘

عبدالحنان ایک بہن اور چار بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہے۔ اس کی والدہ عارفہ اور سب سے بڑا بھائی رضوان کپڑے کے کارخانے میں مزدوری کرتے ہیں۔ حنان کے والد کچھ عرصہ قبل ہی فوت ہوگئے تھے تب سے والدہ عارفہ اور بڑا بھائی رضوان ہی گھر کا خرچ چلاتے ہیں۔.

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حنان کی والدہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میں جس وقت ناشتہ بنا رہی تھی اس وقت نے حنان نے ضد کی کہ اسے ناشتے میں کھانے کے لیے پراٹھا لینا ہے تو میں نے اسے دس روپے دے دیے اور جب وہ گھر سے باہر نکلا تو میں اس کے پیچھے پیچھے دروازے تک گئی لیکن مجھے واش روم جانا تھا اس لیے میں اندر چلی گئی۔‘

’میں واش روم سے باہر آئی تو میں نے اپنے بڑے بیٹے سے کہا کہ حنان ابھی تک نہیں آیا اسے دکان سے لے کر آؤ، لیکن جب میرا بیٹا دکان پر گیا تو اسے کہا گیا کہ حنان وہاں آیا ہی نہیں۔ میں نے جب یہ سنا تو میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ میں اور میرے سارے بچے حنان کو ڈھونڈنے میں لگ گئے۔‘

چار سالہ حنان کی والدہ نے مزید بتایا کہ ’رات گیارہ بجے کے قریب ہمیں عوامی کالونی تھانے سے کال آئی کہ ایک بچہ بازیاب ہوا ہے، ہوسکتا ہے وہ عبدالحنان ہو۔ ہم فوری طور پولیس تھانے پہنچے جہاں معلوم ہوا کہ اغواکاروں کی جانب سے بچے کی آنکھوں کی ایلفی ڈالی گئی تھی اور پولیس نے بچے کو صارم برنی ٹرسٹ کے حوالے کردیا ہے۔ مجھے لگا کہ میرے حنان کی بینائی پوری طرح ختم ہو جائے گی لیکن ہم جب وہاں پہنچے تو حنان نے مجھے دیکھ کر امی کہا اور یہ سن کر میری جان میں جان آگئی۔‘

پولیس کے مطابق ابھی اس بات کا تعین نہیں کیا گیا ہے کہ یہ اغوا برائے تاوان ہے یا کوئی انتقامی نوعیت کا کیس ہے، اغواکاروں کے حوالے سے تفتیش جاری ہے۔ جب کہ صارم برنی شیلٹر ہوم کے بانی  صارم برنی کا کہنا ہے کہ اس ٹرسٹ کی جانب سے بچے کی آنکھوں کا مکمل علاج کروایا جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان