نکلنا خُلد سے آدم کا

روایات میں درج ہے کہ اماں حوا نے حضرت آدم کو بہکا کر جنت سے نکلوا دیا۔ لیکن اگر وہ ایسا نہ کرتیں تو آج دنیا کی حالت کیا ہوتی؟

عورت پر الزام ہے کہ ا س نے حضرت آدم کو بہکایا اور بغاوت پر آمادہ کیا اور انہیں ممنوع درخت کے پھل کو چکھنے پر مجبور کیا۔(پکسا بے)

سامی مذاہب میں عورت کو الزام دیا جاتا ہے کہ اُس نے جنت کی زندگی، جہاں وہ اور آدم سکون اور اطمینان سے رہ رہے تھے، میں حضرت آدم کو بہکایا اور بغاوت پر آمادہ کیا اور انہیں ممنوع درخت کے پھل کو چکھنے پر مجبور کیا۔ اس کے نتیجے میں انہیں جنت سے نکلنا پڑا اور اس دنیا میں آئے جو ویران غیرآباد اور زندگی کی تمام سہولتوں سے محروم تھی۔

 حوا کے اس عمل پر سامی مذاہب عورت کوخطرناک مخلوق سمجھتے ہیں اور اس سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں کیونکہ یہ مردوں کو گنہگار بناتی ہے، انہیں بدی اور شر میں مبتلا کرتی ہے۔ انہیں نیکی سے دور کرتی ہے اور انہیں خدا کی اطاعت سے روکتی ہے۔

اس نقطہ نظر کے برعکس اگر ہم حوا کے عمل اور آدم کے جنت سے نکلنے کے بارے میں تجزیہ کریں تو یہ بات واضح ہو کر ہمارے سامنے آئے گی کہ جنت میں رہتے ہوئے ان دونوں کے کردار میں کوئی اہم خصوصیت نہیں تھی۔ ایک ایسی زندگی کہ جس میں تمام سہولتیں بغیر کسی محنت کے حاصل ہو جائیں ایسی زندگی میں کوئی ہلچل، تحرک اور سنسنی خیزی نہیں ہوتی ہے۔ عیاشی اور آرام کی زندگی اندرونی صلاحیتوں کو ختم کر دیتی ہے کیونکہ اسے کسی مقابلے اور چیلنج کا سامنا نہیں کرنا ہوتا اس لیے ان کی تخلیقی صلاحیتیں ابھرنے نہیں پاتیں۔ اطاعت اور فرمانبرداری تمام ابھرتے جذبات کو ختم کر دیتے ہیں۔ جب زندگی میں کوئی مقصد نہ ہو، کوئی نصب العین نہ ہو اور کوئی کارنامہ کرنے کا عزم نہ ہو تو ایسی زندگی انتہائی غیردلچسپ، سستی اور کاہلی کا سبب بن جاتی ہے۔

اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم اس زندگی سے مطمئن تھے۔ لیکن حوا بحیثیت عورت کے اس زندگی سے مطمئن نہیں تھیں۔ ان میں تبدیلی کی زبردست خواہش تھی وہ پابندیوں کو توڑ کر آزاد زندگی کی خواہش مند تھیں اس لیے انہوں نے آدم کو بغاوت پر آمادہ کیا۔

بغاوت ایک ایسا جذبہ ہے جو فرد کے احساسات اور جذبات کو ابھارتا ہے۔ غلامی کی زنجیریں توڑ کر آزادی کا خواہش مند ہوتا ہے۔ چنانچہ بغاوت کے اس جذبے نے آدم میں یہ جرات اور ہمت پیدا کی کہ وہ ممنوع پھل کھا کر اپنی بغاوت اور آزادی کا اعلان کریں۔ اس نافرمانی پر انہیں جنت سے تو نکالا گیا مگر ان کے کردار میں دو اہم خصوصیات کا اضافہ ہوا یعنی بغاوت کرنا اور غلامی کی زنجیریں توڑنا۔ آزاد رہنا اور وقت کے ساتھ ساتھ برابر تبدیلی کے عمل کو جاری رکھنا۔ دوسری اہم خصوصیت علم کا حصول تھا جستجو اور تحقیق انجانی باتوں کے بارے میں جاننا اور علم کے ذریعے خود کو اور حالات کو سمجھنا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جنت سے نکالے جانے کے بعد جب حوا اور آدم اس دنیا میں آئے تو یہ ایک ویرانہ تھا۔ یہاں زندگی کی سہولتیں خود بخود نہیں مل جاتی تھیں ان کے حصول کے لیے محنت درکار تھی۔ محنت انسان کی جسمانی اور ذہنی قوتوں میں اضافہ کرتی ہے۔ محنت کے بعد جب انسان اپنی روزی پیدا کرتا ہے تو اسے خوشی اور مسرت حاصل ہوتی ہے کیونکہ وہ کسی کا احسان مند نہیں ہوتا اور یہ اس کی محنت کا ثمر ہوتا ہے۔ لہٰذا آدم اور ان کی اولاد نے اپنی محنت، ذہانت اور تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے اس ویران دنیا کو آباد کرنا شروع کیا۔ انہوں نے جب جنگلوں کو صاف کرکے کھیتی باڑی شروع کی، شہروں کو آباد کیا، عمارات بنائیں، سائنس اور ٹیکنالوجی کی ایجادات کیں تو وقت کے ساتھ یہ دنیا تبدیل ہوتی رہی۔

اس وقت انسان اپنی ذہانت کی بلندیوں پر ہے وہ خلاﺅں میں ایسی دنیائیں تلاش کر رہا ہے کہ جس کا ایک زمانے میں کسی کو علم نہ تھا۔ سائنسی اور فنی ایجادات میں زمین کے اندر چھپے خزانوں کو حاصل کر لیا۔ اب انسان دریاﺅں اور سمندروں پر حاوی ہے اور ترقی کی یہ رفتار تیزی سے جاری ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مستقبل میں انسان ترقی کی بلندیوں کو چھو لے گا۔

اس لیے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر آدم جنت میں رہتے تو کیا دنیا کی یہ ترقی ممکن ہو سکتی تھی؟ اس لیے حوا کا بحیثیت عورت کے آدم کو جنت سے نکلوانا دنیا کی ترقی کا سبب بنا۔ اب انہیں جو الزام دیا جاتا ہے کہ انہوں نے آدم کو بہکایا اور ممنوع پھل کھا کر گنہگار بنایا، تو یہی دونوں باتیں اس دنیا میں تبدیلی کا باعث ہوئیں۔ اگر آج یہ دونوں جنت میں رہ رہے ہوتے تو یہ سرزمین غیرآباد اور ویران رہتی۔

اس وجہ سے آدم کا جنت سے نکلنا اس کرہ ارض کے لیے باعث نعمت ثابت ہوا اور اس میں بحیثیت عورت کے حوا کے اہم کارنامہ ہے کہ انہوں نے اس دنیا میں رہنے کے لیے اور زندگی گزارنے کے لیے کوئی مقصد اور نصب العین دیا۔

وہ مذہبی لوگ جو عورت کو گناہ کی علامت سمجھتے ہیں اس حقیقت کو نظرانداز کر دیتے ہیں کہ یہ عورت ہی ہے جو انسانی نسل کو جاری اور ساری رکھے ہوئے ہے، اور اس دنیا کو نسلِ آدم سے آباد کر کے زندگی میں سیاسی، سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں کو نئی توانائی دیتی ہے۔ جو افراد عورت سے دور رہنے کی بات کرتے ہیں۔ انہیں یہ حقیقت یاد رکھنی چاہیے کہ خود ان کی ذات کا دارومدار عورت پر ہے۔

سامی مذہب کے علاوہ دوسرے مذاہب میں عورت کو جو عزت و احترام دیا جاتا تھا اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ وہ عورت کی بطور دیوی پوجا کرتے تھے اور یہ دیویاں ان کی زندگی کے ہر شعبے پر چھائی ہوئی تھیں۔ لہٰذا تاریخ اور مذہب میں عورت کے صحیح کردار کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس پر جو الزامات لگائے گئے ہیں ان سے آزاد کر کے اس کی اصل شخصیت کو سامنے لانا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ