فارم ہاؤس کے لیے پورا خاندان قتل کرنے والا بیٹا پکڑا کیسے گیا؟

1986 میں عدالت کے ایک فیصلے نے بامبر کو پانچ افراد کا قاتل پایا گیا جس پر انہیں پیرول پر رہائی کے امکان کے بغیر عمر قید کی سزا دے کر جیل بھیج دیا گیا۔

ایک ماہ بعد مگفورڈ نے جو اب سابقہ گرل فرینڈ ہیں اور بامبر کے ساتھ آخری رسومات میں گئی تھیں، پولیس کے ساتھ رابطہ کیا جس کے بعد بامبر کے خلاف حقیقت میں مقدمہ قائم کرنے کی کارروائی شروع ہو گئی۔(ریکس)

یہ گندے لطیفے تھے جو جیریمی بامبر نے اپنے والدین اور بہنوں کی آخری رسومات کے موقعے پر سنائے اور ان کی وجہ سے پہلی بار خطرے کی گھنٹیاں بجیں۔

پچیس برس پہلے ہونے والا ایک جرم جس نے جہاں قوم کو دہشت زدہ کر دیا وہیں اس کی اس میں دلچسپی بھی پیدا ہوئی۔ برطانیہ کے دیہی علاقے ایسکس کے فارم ہاؤس میں جیریمی بامبر کے خاندان کی تین نسلیں قتل کر دی گئی تھیں۔

وائیٹ ہاؤس فارم کے بدنام قتل عام کے دوران اس وقت 24 سال کے بامبر ایک لے پالک بیٹے تھے۔ ان کے والدین نیویل اور جیون، بہن شیلاکیفل اور ان کے دو جڑواں بیٹے جن کی عمر چھ برس تھی ان سب کو شاہ جارج کے دور کی ایک الگ تھلگ عمارت میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

اس حقیقت کے باوجود کہ پولیس نے فوری پر اعلان کر دیا ہے کہ کیفل نے سب کو قتل کر کے خود کشی کر لی ہے دوسروں لوگوں نے جلد ہی ان کے بھائی جیریمی پر شک کرنا شروع کر دیا۔ کیفل دماغی عارضے شیزوفرینیا میں ایک سابق ماڈل تھیں۔

خبروں کی ایک مشہور فوٹیج میں ایک سرکاری سکول میں پڑھنے والے ایک سابق لڑکے کو اپنے خاندان کی آخری رسومات کے موقعے پر خراب حالت میں دکھایا گیا۔ اس کے چہرے پر دکھ نمایاں تھا۔

لیکن، شیلا کے سابق شوہر اور جڑواں بچوں کے والد کولن کیفل کہتے ہیں کہ جیسے ہی کیمرے بند ہوئے بامبر کا رویہ ہی تبدیل ہو گیا۔

1994 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب’ان سرچ آف رین بو اینڈ‘ میں انہوں نے لکھا کہ’جیریمی نے لطیفے سنانا اور ہنسنا شروع کر دیا۔ انہوں نے مزید لکھا کہ جیریمی نے اس کے بعد فحش گفتگو کی کہ وہ’جولی(جو اس وقت ان کی گرل فرینڈ تھیں)کے ساتھ کیسے گھر واپس جا کر مزے کر سکتے ہیں۔‘

یہ  ایسے تھا جیسے کسی عمارت کے سامنے والے حصے میں پڑنے والی پہلی دراڑ، جس نے تیزی سے نیچے تک آنا تھا، اور موسم گرما کی ایک رات کے دوران ہونے والے تشدد کے اس غیرمعمولی واقعے میں اس نوجوان کے ہاتھوں اپنا پورا خاندان ختم کرنے میں ملوث پائے جانے پر منتج ہونا تھا۔

پوری خوفناک کہانی اب آئی ٹی وی کے چھ حصوں پر مشتمل ڈرامے میں دکھائی جائے گی جس کا آغاز بدھ سے ہو گا۔ ڈرامے کو وائیٹ ہاؤس فارم کا سادہ سا نام دیا گیا ہے۔ ڈرامہ جس میں فریڈی فوکس، کریسیڈا بونس اور سٹیفن گراہم کام کر رہے ہیں امید ہے کہ اس سے کبھی برطانیہ میں ہونے والے ان جرائم میں سے ایک پر نئی روشنی پڑے گی جن کے بارے میں بہت باتیں کی گئیں۔

کیرل این لی کہتی ہیں: ’میرے خیال میں تقریباً ان تمام افراد کو جو اس وقت ارد گرد موجود تھے انہیں یہ واقعہ یاد ہو گا۔‘ لی نے 2015 میں’دا مرڈرز ایٹ وائیٹ ہاؤس فارم‘کے عنوان سے ایک لکھی تھی۔ انہی کی کتاب سے متاثر ہو کر نئی ڈرامہ سیریز بنائی گئی ہے۔

’یہ دیہی علاقے میں رہنے والا ایک امیر خاندان تھا جو بظاہر ایک شاندار زندگی بسر کر رہا تھا۔ اس کا انجام ایسا ہوا جو لازمی طور پر خون کا غسل تھا۔ یہ دہلا دینے والا واقعہ تھا۔‘

07 اگست 1985 کو بامبر نے بذات خود کال کی اور پولیس کو پہلی بار چوکس کیا کہ ٹول شنٹ ڈی آرسی نامی گاؤں کے قریب واقع ان کے گھر میں کوئی سانحہ پیش آیا ہے۔

انہوں نے قریبی گاؤں گولڈہینگر میں واقع اپنے گھر سے چیلمزفورڈ پولیس سٹیشن کال کی اور بتایا کہ انہیں ان کے گھبرائے ہوئے والد نے کال کر کے بتایا ہے کہ’آپ کی بہن پاگل ہو گئی ہیں اور ان کے ہاتھ ایک بندوق لگ گئی ہے۔‘

انہوں نے پولیس افسروں کو بتایا کہ انہوں نے گولی چلنے کی آواز سنی جس کے بعد فون لائن ڈیڈ ہو گئی۔

مسلح ہو کر فارم ہاؤس پہنچنے والے پولیس اہلکاروں نے جو منظر دیکھا وہ ناقابل تصور حد تک خوفناک تھا۔ 61 سالہ نیویل کو ان کے باورچی خانے میں تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد آٹھ گولیاں ماری گئی تھیں جن میں سے چار ان کے سر میں ماری گئیں۔ جبکہ مرکزی خواب گاہ میں ان کی 61 سالہ اہلیہ کے پورے جسم میں سات گولیاں مار کر اسے چھلنی کر دیا گیا۔ ایک گولی عین ان کی آنکھوں کے درمیان بہت کم فاصلے سے ماری گئی۔ خون پورے فرش پر پھیل گیا۔ قالینوں پر پھیلے خون سے ظاہر ہوتا تھا کہ انہوں نے اپنا جسم گھسیٹ کر قاتل سے دور جانے کی کوشش کی تھی۔

ان کی بیٹی شیلا اور بامبر کی بہن کو بھی اسی بیڈروم میں گولی ماری گئی تھی۔ دونوں بچوں کو بستر میں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ بظاہر سوئے ہوئے لگتے تھے۔ ڈینیئل  کا انگوٹھا اب بھی اس کے منہ میں تھا۔ اس وقت کی رپورٹس کے مطابق خون ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔

کئی فرانزک شواہد کے باوجود پولیس بامبر کی طرف سے کی گئی کال کے زیراثر آ گئی اور تقریباً فوراً ہی الزام کیفل پر لگا دیا۔ جب ان کی لاش ملی تو اس وقت ان کے ہاتھ میں 22 بور کی رائفل اور انجیل تھی۔

واقعے کے فوراً بعد ایک سطر کی سرخی جمائی گئی۔’ماڈل گرل نے پاگل ہو کر اپنے خاندان کا قتل عام کرڈالا۔‘

اس کے باوجود چند دن میں یہ خیال کمزور پڑنے لگا۔ مجسمہ ساز کیفل جن کی عمر اب 66 برس ہے نے کہا ہے کہ صرف آخری رسومات کے موقعے پر بامبر کے رویے نے شبہات پیدا نہیں کئے۔ فوٹیج دیکھنے والی پولیس بھی ان کی رونے دھونے کی اداکاری سے متاثر نہیں ہوئی تھی۔

نئے ڈرامے میں ڈیٹیکٹو سارجنٹ سٹین جونز کا کردار ادار کرنے والے مارک ایڈی نے اس سے پہلے اس ہفتے کہا تھا کہ’آخری رسومات کے موقعے پر مجھے جیریمی بامبر کو دیکھنا یاد ہے۔ مجھے ان کا رویہ عجیب محسوس ہو رہا تھا۔‘

آخری رسومات میں شرکت کرنے والے دو افراد کو بعد میں یاد آیا کہ اس دن نوجوان نے ملبوسات تیار کرنے والی کمپنی ہیوگوبوس کا سوٹ پہن رکھا تھا۔

لی نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا ہے کہ’ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فارم ہاؤس واپس آنے کے بعد وہ سیڑھیاں اتر کر نیچے آئے اور اپنی جیکٹ کھول کر کہا کہ’بوس‘ ’یہ وہ ہے جو میں اب سے آئندہ کے لیے ہوں۔‘

شائید یہ حقیقت زیادہ متعلقہ ہو کہ جب خود بامبر کے کزنز نے آخری رسومات کی سروس کے کئی روز بعد فارم ہاؤس کا معائنہ کیا توانہیں پتہ چلا کہ پولیس نے ایک اہم  شہادت کو نظرانداز کر دیا تھا: یہ تھا قتل کے لیے استعمال ہونے والے آلے کا سائلینسر۔

چونکہ اس پر مس کیفل کے خون کے دھبے موجود تھے اور چونکہ ماہرین متفق تھے کہ وہ اپنے آپ کوگولی مارنے کے بعد اسے الماری میں نہیں رکھ سکتی تھیں اس لیے ان کا قاتل ہونا مشکوک ہو گیا۔ ان کے رات کے کپڑوں پرگن آئل کا کوئی نشان بھی نہیں ملا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کچھ ہفتے بعد بامبر کے رویے کا ایک بار پھر وقت جائزہ لیا گیا جب انہوں نے اپنی مردہ بہن کی ماڈلنگ کے دوران لی گئی قمیض کے بغیر تصویریں فروخت کرنے کے لیے اخبار دا سن سے رابطہ کیا۔ اخبار نے تصاویر خریدنے سے انکار کردیا اوراس کی بجائے اس عجیب نوعیت رابطے کے بارے میں خبر شائع کر دی۔

صرف ایک ماہ بعد مگفورڈ نے جو اب سابقہ گرل فرینڈ ہیں اور بامبر کے ساتھ آخری رسومات میں گئی تھیں، پولیس کے ساتھ رابطہ کیا جس کے بعد بامبر کے خلاف حقیقت میں مقدمہ قائم کرنے کی کارروائی شروع ہو گئی۔

مگفورڈ نے پولیس افسروں کو بتایا کہ بامبر نے پانچ لاکھ پاؤنڈ کا پھیلتا ہوا فارم ہاؤس ورثے میں پانے کے لیے اپنے خاندان کو قتل کرنے کی بات کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جرم والی رات بھی انہوں نے مجھے فون کیا اور کہا کہ’یہ آج رات ہو گا یا کبھی نہیں۔‘ صبح کے تقریباً تین بجے انہوں نے مگفورڈ کو دوبارہ فون کیا اور کہا کہ’فارم ہاؤس پر کچھ گڑبڑ ہے۔‘ ’میں رات بھر سو نہیں سکا۔‘

اس وقت تک جوڑے کے تعلقات ختم ہو چکے تھے اور بامبر نے ہمیشہ یہ کہا ہے ہے کہ مگفورڈ نے تعلق ختم کرنے کا انتقام لینے کے لیے ان پر الزامات لگائے۔

1986 میں ایک جیوری نے بامبر کی بات پر یقین نہیں کیا۔ انہیں پانچ افراد کا قاتل پایا گیا جس پر انہیں پیرول پر رہائی کے امکان کے بغیر عمر قید کی سزا دے کر جیل بھیج دیا گیا۔ جج مسٹر جسٹس ڈریک نے انہیں’ناقابل یقین حد تک برا‘قرار دیا۔ ان کی جانب سے بعد میں کی جانے والے اپیلیں مسترد کر دی گئیں۔ اس ہفتے ڈرامے کو نشر ہونے سے روکنے کی کوششیں کرنے والے وکیلوں کو بھی ناکامی ہوئی ہے۔

50 سالہ لی کہتی ہیں: ’میں نے اس کیس کا کئی سال تک مطالعہ کیا ہے اور مجھے کوئی ایسی چیز نہیں نظر آئی جس سے یہ لگے کہ وہ قاتل نہیں ہیں۔‘ ’یہ بہت قائل کرنے والا معاملہ ہے اور مجھے یقین ہے کہ درست شخص کو مجرم قرار دیا گیا ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی