ملتان کا قدیم مندر جہاں ہندوؤں کو ہی جانے کی اجازت نہیں

بابری مسجد کے ردعمل میں مسمار کیا گیا تاریخی پرہلاد پوری مندر 27 سال سے کھنڈر بنا ہوا ہے۔ ہندو برادری کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان اس مندر کی تعمیر نو کے بعد اسے کھول کر ’بھارت کو منہ توڑ جواب دے سکتی ہے۔‘

پاکستان میں صوبہ پنجاب کے جنوبی شہر ملتان کے قلعہ کہنہ قاسم باغ میں واقع ہندوؤں کا تاریخی مندر ’پرہلاد پوری‘ تاریخی اعتبار سے دنیا بھر میں بسنے والے ہندوؤں کے لیے اہم حیثیت رکھتا ہے کیونکہ کہا جاتا ہے کہ ’ہولی‘ کے تہوار کا آغاز یہیں سے ہوا تھا۔ تاہم یہ مندر گذشتہ 27 سال سے ایک کھنڈر کی صورت بنا ہوا ہے۔

1992 میں بھارت میں انتہا پسندوں کی جانب سے تاریخی بابری مسجد کے منہدم کیے جانے کے بعد پاکستان میں سخت ردعمل سامنے آیا اور مشتعل مظاہرین نے ملتان میں اس تاریخی مندر کو بھی مسمار کر دیا۔ اس کے بعد سے یہ مندر بند پڑا ہے اور عمارت بھی زبوں حالی کا شکار ہے۔ اس مندر کے بالکل ساتھ  برصغیر کے معروف مسلمان روحانی پیشوا بہاؤ الدین زکریا کا دربار واقع ہے جو مذہبی ہم آہنگی اور امن کا سبق دیتا نظر آتا ہے۔

ہولی کی تاریخ

ملتان سے تعلق رکھنے والے ہندو پنڈت راج کپور نے بتایا کہ ہندو دھرم کی روایات کے مطابق یہ قدیم مندر بھگت پرہلاد کے نام سے منسوب ہے، جو ست یوگ میں آئے تھے۔

 پنڈت راج کپور کے مطابق پرہلاد کے والد ہرناکشپ اپنے آپ کو بھگوان کہتے تھے اور اپنی رعایا سے اپنی پوجا کرواتے تھے، تاہم پرہلاد نے انہیں بھگوان ماننے سے انکار کر دیا جس کے بعد ان کے والد اور پھپھو ہولیکا ان کی جان کے دشمن ہوگئے۔ لیکن ہولیکا کے مرنے کے بعد رنگ بکھیرے گئے اور اس طرح ہولی کے تہوار کا آغاز ہوا۔

پنڈت راج کپور کے مطابق اس واقعے کا تزکرہ وشنو پران مذہبی کتاب میں موجود ہے اور یہ بھی کہ ہرناکشپ دور میں بھگت پرہلاد موجود تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ اس مندر کو ہندو دھرم میں خاص اہمیت اس لیے بھی حاصل ہے کیونکہ اس خطے کے لوگوں میں ہندو مذہب کی تعلیمات کے فروغ میں بھگت پرہلاد کا نمایاں کردار رہا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب تک 1992 کا واقعہ پیش نہیں آیا تھا تب تک نہ صرف بھارت اور پاکستان بلکہ دنیا پھر سے ہندو بڑی تعداد میں اس مندر کی زیارت کے لیے آتے تھے۔

پنڈت راج کپور کے مطابق ہندوؤں کو پاکستان میں عبادت اور مذہبی رسومات کی آزادی حاصل ہے لیکن اگر اس مندر کو دوبارہ تعمیر کرا دیا جائے تو یہاں بڑی تعداد میں نہ صرف غیر ملکی ہندو آئیں گے بلکہ پاکستان اور ملتان کے ہندو بھی اپنے تاریخی مندر پر حاضری دے سکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اب مندر دور دراز ہونے کی وجہ سے زیادہ تر گھروں میں ہی عبادات کی جاتی ہیں۔ ہندو خاندان مختلف اوقات میں اپنے گھروں میں پوجا کا اہتمام کرتے ہیں جہاں مرد، خواتین اور بچے جمع ہوکر اجتماعی عبادت کرتے ہیں اور مذہبی بھجن بھی سنتے ہیں۔

حکومت سے اپیل

پاکستان ہندو ویلفیئر کونسل کے پنجاب میں سیکرٹری نادر قمر نے بتایا کہ پاکستان کی سب سے بڑی اقلیت ہندو ہیں اور صرف ملتان شہر میں ہی تین سو کے قریب ہندو گھرانے اور دو ہزار افراد آباد ہیں، تاہم عبادت کے لیے صرف تین مندر ہیں۔ ان میں ڈبل پھاٹک کمہار منڈی میں بالمیک مندر، باغ لانگے خاں میں کبیر نواس مندر اور نصرت کالونی میں کرشنا مندر شامل ہیں۔ لیکن اگر تاریخی پرہلاد پوری مندر کی تعمیر نو کرکے اسے کھول دیا جائے تو سب وہیں جمع ہو کر عبادات کرسکیں گے۔

نادر قمر نے کہا کہ پاکستان میں بسنے والے تمام ہندو گھرانے تقسیم سے پہلے سے یہاں آباد ہیں جس کا ثبوت یہاں پرہلاد پوری مندر کی طرح کئی قدیمی مندروں کا پایا جانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بابری مسجد کا واقعہ بھی قابل مذمت تھا اور پرہلاد پوری مندر کو گرانا بھی غلط تھا۔

نادر قمر نے کہا: ’اگر اس مندر کو حکومت دوبارہ تعمیر کر دے، جس طرح سکھوں کے لیے کرتارپور بارڈر کھولا گیا ہے تو یہاں بسنے والے ہندو اور بھارتی ہندو پاکستان کے مشکور ہوں گے۔ ایسا کرنے سے عالمی سطح پر بھارتی انتہا پسندانہ سوچ کا بھی پتہ چلے گا اور یوں پاکستان بھارت کو منہ توڑ جواب دے سکتا ہے۔‘

واضح رہے کہ پرہلاد پوری مندر بند رکھا گیا ہے اور صرف محکمہ اوقاف کی اجازت سے میڈیا کوریج کے لیے کچھ دیر کے لیے کھلوایا جاسکتا ہے۔ ہندوؤں کو یا کسی بھی غیر متعلقہ شخص کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا