بھارتی سپریم کورٹ کا کشمیر میں تمام پابندیوں پر نظرثانی کا حکم

سپریم کورٹ کے بینچ نے قرار دیا کہ ’انٹرنیٹ کی عارضی معطلی اور شہریوں کی بنیادی آزادیوں کو کم کرنا صوابدیدی نہیں ہونا چاہیے اور یہ معاملہ عدالتی جائزے کے لیے کھلا ہے۔‘

12 اکتوبر 2019 کو لی گئی اس تصویر میں کشمیری صحافی انٹرنیٹ کی بندش کے خلاف مظاہرے میںشریک ہیں۔ (اے ایف پی)

بھارتی سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر میں عائد انٹرنیٹ کی رسائی سمیت تمام پابندیوں کو ’اختیارات کا غلط‘ استعمال قرار دیتے ہوئے حکومت کو ان پر نظرثانی کا حکم دیا ہے۔ 

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق سپریم کورٹ نے حکومت کو یہ بھی حکم دیا کہ وہ پانچ اگست 2019 سے کشمیر میں لاک ڈاؤن کے حوالے سے تمام احکامات کو عام کرے۔ 

عدالت کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ کی بندش آزادی صحافت پر اثرانداز ہو رہی ہے، جو آزادی اظہار رائے اور آزادی تقریر کا حصہ ہے۔ 

’دا ہندو‘ کے مطابق جسٹس این وی رمنا کی سربراہی میں تین ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ نے قرار دیا کہ انٹرنیٹ کی عارضی معطلی اور شہریوں کی بنیادی آزادیوں کو کم کرنا صوابدیدی نہیں ہونا چاہیے اور یہ معاملہ عدالتی جائزے کے لیے کھلا ہے۔

عدالت نے جموں و کشمیر کی انتظامیہ کو انٹرنیٹ کی بندش کے معاملے کا جائزہ لینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ’انٹرنیٹ کے استعمال کی آزادی آرٹیکل 19 (1) (اے) کے تحت آزادانہ تقریر کا ایک بنیادی حق ہے اور انٹرنیٹ کے ذریعے تجارت کو آرٹیکل 19 (1) (جی) کے تحت محفوظ کیا گیا ہے۔‘

بھارتی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت اس کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی گئی تھی۔ دوسری جانب خطے میں سخت کرفیو نافذ کرکے انٹرنیٹ اور ذرائع مواصلات کو بند کردیا گیا تھا۔

حکومت کے اس فیصلے کے خلاف ’کشمیر ٹائمز‘ کے مدیر انورادھا بھاسن نے سپریم کورٹ میں درخواست دی تھی، جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ اس فیصلے سے پریس کی آزادی، ضروری سروسز خاص کر خاندانوں کے درمیان رابطے ختم کر دیئے گئے، جن سے لوگوں کو شدید مشکلات درپیش رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاست کی 70 لاکھ آبادی پر شک کرتے ہوئے انہیں قید کر دیا گیا اور بغیر کچھ سوچے دفعہ 144 نافذ کر دی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم جسٹس رمنا کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے جموں و کشمیر کی حکومت نے موقف اختیار کیا تھا کہ وادی میں حالات معمول پر آچکے ہیں اور لوگ خوش ہیں۔ کشمیر کی حکومت نے انورادھا بھاسن کے دعوے کو ’مبالغہ‘ قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔

جموں و کشمیر کی حکومت کے وکیل توشار مہتہ نے موقف اختیار کیا تھا کہ یہ پابندیاں خفیہ اداروں اور فوج کی معلومات کی بنیاد پر سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز مواد اور تقاریر، جعلی خبروں اور ویڈیوز کی وجہ سے عائد کی گئی تھیں۔

مسٹر مہتہ نے تسلیم کیا تھا کہ انٹرنیٹ تک رسائی آزادی اظہار کے بنیادی حق کا ایک حصہ ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا کہ ’جدید دہشت گردی انٹرنیٹ پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔‘

کیس کی گذشتہ سماعت میں وکیل مہتہ نے اس بات کا دفاع کیا کہ ’دہشت گردی میں سوشل میڈیا کو سب سے زیادہ مؤثر ہتھیار کی حیثیت حاصل ہے اور یہ عالمی سطح پر موجود ہے۔‘

جواب میں انورادھا بھاسن کے وکیل وریندا گروور نے فوری مداخلت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس انسانی حقوق کو بھی یہی اہمیت حاصل ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا