پشاور کی لیدر مارکیٹ پر افغان کاریگروں کا راج

افغان کالونی کی لیدر مارکیٹ میں تقریباً 150 کے قریب چھوٹی بڑی دکانیں ہیں جن میں 80 فیصد سے زائد کاریگر وہ افغان پناہ گزین ہیں جو افغان ’جہاد‘ کے بعد پشاور متنقل ہوئے۔

افغانستان سے تعلق رکھنے والے محمد صابر کا خاندان گذشتہ 40 سال سے پشاور میں لیدر جیکٹس کے کاروبار سے منسلک ہے۔

جب 1980 کی دہائی میں سویت یونین کی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں اور حالات خراب ہوئے تو صابر کے والدین پشاور منتقل ہوگئے اور یہاں پر گھر کا چولہا جلانے کے لیے لیدر جیکٹس کا کاروبار شروع کیا۔

صابر افغان کالونی میں واقع پشاور کی لیدر جیکٹس کی سب سے بڑی مارکیٹ میں دکان چلا رہے ہیں۔ اس مارکیٹ میں 80 فیصد سے زائد کاریگر وہ افغان پناہ گزین ہیں جو افغان ’جہاد‘ کے بعد پشاور متنقل ہوگئے۔

صابر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پہلے ان کے ماموں نے اس لیدر مارکیٹ میں دکان کھولی تھی اور اس کے بعد ان کے دیگر رشتہ داروں نے یہ ہنر سیکھ لیا، اب خاندان کے بہت سے لوگ اسی کاروبار سے وابستہ ہیں۔

اس مارکیٹ میں تقریباً 150کے قریب چھوٹی بڑی دکانیں ہیں اور ان دکانوں سے متصل لیڈر جیکٹس بنانے کی چھوٹی فیکٹریاں بھی ہیں۔ صابر کے مطابق اس مارکیٹ کو افغان پناہ گزینوں نے ہی آباد کیا۔

لیدر کے میعار کے بارے میں ان کا کہنا تھا: ’یہاں پر ملنے والا لیدر اصلی ہے۔ اس کے لیے کپڑا ہم کراچی، قصور اور لاہور سے منگواتے ہیں جبکہ چمڑے کے اصلی ٹکڑے بیرون ممالک سے بھی درآمد کیے جاتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افغان ’جہاد‘ کے بعد ہزاروں افغان پناہ گزین پشاور منتقل ہوئے اور مختلف چھوٹے بڑے کاروباروں کے ساتھ وابستہ ہوگئے۔ پشاور سمیت ملک  بھر کی مارکیٹوں میں آج بھی آپ کو افغان پناہ گزینوں کے بڑے بڑے کاروبارنظر آئیں گے۔

انسٹی ٹیوٹ آف سٹرٹیجک سٹڈیز کی 2017 کی ایک رپورٹ کےمطابق پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والا ملک ہے، جہاں 1979 سے 50 لاکھ افغان پنا گزین آباد رہے۔

رپورٹ کے مطابق 2002  کے بعد ان پناہ گزینوں میں سے کئی واپس افغانستان چلے گئے اور اب تقریباً 30  لاکھ رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ پناہ گزین پاکستان میں آباد ہیں۔ ان پناہ گزینوں کی زیادہ تعداد خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں رہائش پذیر ہےاور یہ  پشاور سمیت دیگر شہروں میں اپنے کاروبار چلاتے ہیں۔

ان پناہ گزینوں کی موجودگی سے کے پی صوبے کی معاشی حالت پر بھی بہت گہرا اثر پڑا ہے۔  یہ پناہ گزین کپڑے، قالین، قیمتی پتھر، لیدر اور اسی طرح کے مخلتف چھوٹے بڑے کاروباری سینٹرز کے ساتھ وابستہ ہیں۔

انسٹی ٹیوٹ آف سٹرٹیجک سٹڈیز کی اسی رپورٹ کے مطابق 2017  سے پہلے کے پانچ سالوں میں افغان پناہ گزینوں کے قیمتی پتھروں کے کاروبار سے ملک کو دو کروڑ 70 لاکھ  ڈالزر سے زائد کا زرمبادلہ حاصل ہوا۔

اسی طرح خیبر پختونخوا میں  قالین کی 70 فیصد سے زائد صنعت میں افغان پناہ گزینوں کا حصہ ہے۔ تاہم اس کاروبار میں گذشتہ کئی سالوں میں کمی سامنے آئی ہے کیونکہ اس سے وابستہ کاریگر افغانستان واپس چلے گئے ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق خیال یہ کیا جاتا ہے کہ انہی کاریگروں نے اب بھارت میں اپنے کاروبار شروع کردیے ہیں۔

پشاور کا صدر بازار شہر کے بڑے کاروباری مراکز میں شمار کیا جاتا ہے۔ صدر بازار کی تنظیم تاجران کے صدر مجیب الرحمٰن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صدر بازار میں 30  فیصد تک دکانیں افغان پنا گزینوں کی ہیں جبکہ اس بازار میں کپڑے کی شفیع مارکیٹ میں 80 فیصد کپڑے کے دکانیں افغان پناہ گزینوں کی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ افغان پناہ گزین سب سے زیادہ کپڑے، الیکٹرنکس، کاسمیٹکس اور موبائل فونز کے کاروباروں سے مسنلک ہیں۔

مجیب الرحمٰن نے بتایا ایک طرف اس مارکیٹ سے صوبے کے معیشت کو فائدہ ضرور ہے لیکن دوسرے طرف حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے ہمارے ملک کے اپنے نوجوان اور کاروباری طبقے کو پریشانی بھی ہے۔

’افغان پناہ گزینوں کو کاروبار کی اجازت بالکل ہونی چاہیے لیکن دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں پناہ گزینوں کے لیے کاروبار چلانے کی جو پالیسی ہے وہ پاکستان میں بھی ہونی چاہیے تاکہ ملک کے اپنے باشندے اور کاروباری طبقے کو اپنے کاروبار سے فائدہ ہو۔‘

کم اجرت پر کام کرنے والے افغان پناہ گزین

پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی آمد  سب سے زیادہ 1980 کے بعد ہوئی۔ امریکی ادارے سی آئی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق جب 1983 کے بعد افغان پناہ گزین آنا شروع ہو گئے تو کمپنیوں کو کم اجرت پر کام کرنے والے افراد مل گئے۔

اُس وقت یہ پناہ گزین ایک دن مزدوری کے 15 سے 25  روپے جبکہ پاکستانی دن کے 30 روپے لیتے تھے، جس کی وجہ سے افغان پناہ گزینوں کو زیادہ ترجیح ملنا شروع ہوگئی۔

اسی طرح افغان پناہ گزینوں کے آنے کے بعد گھروں کے کرایوں میں بھی اضافہ دیکھا گیا تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق 1979 سے 1986 تک پشاور میں گھروں کے کرایوں میں 500  فیصد تک اضافہ ہوا۔

آج بھی اگر پشاور کے پوش علاقے حیات آباد میں دیکھا جائے تو تین مرلے کے زیادہ تر گھروں میں افغان پناہ گزین ہی آباد ہیں، اور ان گھروں سے کرایوں کی مد میں مالکان کو لاکھوں روپے ملتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان