عدالتی حکم پر بھی کرنل انعام کو پیش نہ کیا، ’قومی سلامتی کا آخر کیا ایشو ہے‘

سپریم کورٹ نے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کی رہائی کے خلاف درخواست کی سماعت کرتے ہوئے تحریری وجوہات طلب کر لیں کہ ایسے کون سے حساس معاملات ہیں جس کی وجہ سے سماعت کمرہ عدالت کی بجائے چیمبر میں سنی جائے۔

سپریم کورٹ میں تین رکنی بینچ نے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کی رہائی کے خلاف وزارت دفاع کی درخواست پر سماعت کی (فائل تصویر: اے ایف پی)

سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کی وکالت کرنے والے ایڈووکیٹ کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کی رہائی کے خلاف درخواست کی سماعت کرتے ہوئے تحریری وجوہات طلب کر لیں کہ ایسے کون سے حساس معاملات ہیں جس کی وجہ سے سماعت کمرہ عدالت کی بجائے چیمبر میں سنی جائے۔

سپریم کورٹ میں جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں پیر کو تین رکنی بینچ نے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کی رہائی کے خلاف وزارت دفاع کی درخواست پر سماعت کی۔ 

وزارت دفاع کے حکام اور اٹارنی جنرل عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش ہوئے۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل انور منصور نے سماعت کے آغاز میں ہی عدالت عظمیٰ سے استدعا کی کہ چونکہ معاملہ قومی سلامتی کا ہے اس لیے اس کیس کو چیمبر میں سنا جائے۔

جس پر عدالت نے کرنل انعام الرحیم کو پیش کرنے کا حکم دیا۔

وقفے کے بعد دوبارہ سماعت کے آغاز پر کرنل انعام کو تو عدالت میں پیش نہ کیا گیا لیکن اٹارنی جنرل اپنی استدعا پر قائم رہے اور کہا کہ ’قومی سلامتی کا مسئلہ ہے، عدالت نوعیت کو سمجھے۔‘

وزارت دفاع نے موقف اختیار کیا کہ لاہور ہوئی کورٹ راولپنڈی بینچ کا کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کی رہائی کا فیصلہ خلاف قانون ہے، اس لیے سپریم کورٹ انعام الرحیم کی رہائی کا فیصلہ معطل کرکے اپیل پر تفصیلی سماعت کرے۔ 

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاملہ حساس ہے اور قومی سلامتی کا معاملہ ہے لہذا اِن کیمرہ سماعت کی جائے لیکن عدالت نے حکومت کی ان کیمرہ سماعت کی استدعا مسترد کر دی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اٹارنی جنرل نے دوسری استدعا کی کہ عدالت انعام الرحیم کی رہائی کا مختصر فیصلہ معطل کر دے جس پر جسٹس مشیر عالم نے جواب دیا کہ عدالت کے مختصر فیصلے پر عملدرآمد کریں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’ہم کرنل انعام الرحیم کو عدالت میں پیش کر دیتے ہیں لیکن اس سے پہلے عدالت ان دستاویزات کو دیکھ لے۔‘

اٹارنی جنرل نے سر بمہر لفافہ عدالت میں پیش کیا، جس کا جسٹس مشیر عالم نے جائزہ لیا اور ریمارکس دیے کہ ’اس میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جس کو آپ سر بمہر لفافے میں پیش کریں۔‘

جسٹس مشیر عالم نے مزید کہا: ’ہمارے سامنے کوئی ایسا مواد نہیں جو حساس نوعیت کا ہو، آپ کو ہائی کورٹ کے احکامات پر عمل کرنا ہوگا۔‘

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ ’یہ تو وہ چیزیں ہیں جو اخباروں میں چھپی ہوئی ہیں۔ اس لیے عدالت آپ کے دلائل سے مطمئن نہیں۔ آپ کرنل انعام کو عدالت میں پیش کریں۔ آپ نے تو ایسے معاملات کو پیش کیا جیسے پتہ نہیں کیا ہو گیا۔ ایسے ڈراما کیوں کرتے ہیں۔‘ 

اٹارنی جنرل کی با رہا استدعا پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ’قومی سلامتی کا آخر ایسا کیا ایشو ہے؟‘

جسٹس مشیر عالم نے بھی کہا کہ ’کوئی حساس چیز ہے تو عدالت اسے پبلک نہیں کرے گی‘ لیکن اٹارنی جنرل بضد رہے کہ حساس مواد عدالت کو چیمبر میں ہی پیش کروں گا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کوئی مواد تو ہو جس کی بنیاد پر سماعت چیمبر میں کریں۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کے روبرو کہا: ’کل عدالت کو تحریری مواد پیش کر دوں گا کہ یہ معاملہ حساس کیوں ہے۔‘

سپریم کورٹ بار کے صدر قلب حسن، کرنل انعام الرحیم کے وکیل کے طور پر عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کو غیرقانونی تحویل میں رکھا گیا ہے۔ انہیں اہل خانہ سے بھی نہیں ملنے دیا جا رہا، وہ ہائی کورٹ کے وکیل ہیں۔

انہوں نے عدالت کے روبرو دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر ان پر کوئی الزام ہے تو ثابت کریں لیکن اس طرح غیر قانونی تحویل میں کیوں رکھا ہوا ہے؟ کرنل انعام نے قومی سلامتی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔‘

لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ نے نو جنوری کو لاپتہ افراد کے کیسز کی پیروی کرنے والے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کی حراست غیر قانونی قرار دیتے ہوئے وزارت دفاع کو اُن کی رہائی کا حکم دیا تھا۔ 

دس جنوری کو دائر کی جانے والی درخواست میں وزارت دفاع نے موقف اپنایا تھا کہ کرنل (ریٹائرڈ) انعام الرحیم کو پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا اور ان کے خلاف تحقیقات جاری ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان