’کراچی میں سردی معمولی ہے، کوئی ریکارڈ نہیں ٹوٹا‘

محکمہ موسمیات سندھ کے چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفراز احمد نے کراچی میں سردی کے حوالے سے ’سالوں کے ریکارڈ ٹوٹنے‘ کی خبروں اور سوشل میڈیا پر ’کراچی شدید سردی کے باعث جم کر کلفی ہوگیا‘ جیسی پوسٹس کو معلومات کی کمی اور افواہیں قرار دے دیا۔

اسلام آباد کی طرح کراچی میں بے گھر افراد اور لاوارث خواتین کے لیے سرکاری طور پر کوئی بڑا شیلٹر ہاؤس موجود نہیں (تصویر: فرحت امتیاز جانوری)

محکمہ موسمیات سندھ کے چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفراز احمد نے کراچی میں سردی کے حوالے سے مقامی اخبارات اور ٹی وی چینلز پر ’سالوں کے ریکارڈ ٹوٹنے‘ والی خبروں اور سوشل میڈیا پر ’کراچی شدید سردی کے باعث جم کر کلفی ہوگیا‘ جیسی پوسٹس کو معلومات کی کمی اور افواہیں قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی میں جاری سردی معمولی ہے اور کوئی ریکارڈ نہیں ٹوٹا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’یہ جو مقامی میڈیا خبریں لگاتا ہے کہ ایک سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا تو ریکارڈ ٹوٹنا بھی کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک سو سال پہلے بھی تو ایسا واقعہ رونما ہوچُکا ہے، تو اب نئی بات کیا ہے۔ یعنی ایسا کوئی پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ ایسا پہلے بھی ہوچکا ہے۔‘

محکمہ موسمیات کی جانب سے ریکارڈ کی گئی کراچی شہر کی موسمیاتی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے سردار سرفراز کا کہنا تھا کہ ’آخری بار کراچی میں درجہ حرارت 1934 میں صفر ڈگری ریکارڈ کیا گیا تھا۔ 1991 میں دو اعشاریہ تین، 1992 میں پانچ اعشاریہ چار ریکارڈ کیا گیا تھا جب کہ آج منگل کو کراچی میں درجہ حرارت سات اعشاریہ پانچ ڈگری ریکارڈ کیا گیا، جو ایک نارمل درجہ حرارت ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’17 جنوری کو درجہ حرارت چھ  ڈگری تک پہنچنے کا امکان ہے جو تین سے چار دن تک جاری رہے گا اور جنوری کے آخری ہفتے میں شہر کا موسم نارمل ہوجائے گا۔‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ جیسے ٹروپیکل سائیکلون اور مون سون کی بارشوں کا سسٹم خلیج بنگال میں بن کر مشرق سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے، اسی طرح سردیوں کا سسٹم سائبیریا کے اوپر ہائی پریشر بننے کے بعد شمال مشرق سے بلوچستان کے راستے پاکستان میں داخل ہوتا ہے اور کوئٹہ سے ہی سرد ہوائیں کراچی تک پہچنتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مقامی میڈیا اور سوشل میڈیا پر کراچی کی سردی کے ’ریکارڈ پہ ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں‘ جب کہ کچھ پوسٹوں میں کہا جا رہا ہے کہ سردی کے بعد کراچی والے سڑک پر آگ جلا کر ہاتھ سینک رہے ہیں اور گرم یخنی اور سوپ کے ساتھ خشک میوہ جات کا استعمال کر رہے ہیں اور شہر میں ’شدید سردی کی لہر‘ کے بعد گرم کپڑوں کی خریداری میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

مقامی میڈیا کے اس رجحان پر بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی اور کراچی پریس کلب کے صدر امتیاز خان فاران نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’سندھ میں سیاسی سرگرمیاں نہ ہونے کے باعث خبروں کی قلت کی وجہ سے مقامی میڈیا چھوٹی خبروں کو بڑھا چڑھا کر اور یہاں تک کہ ریکارڈ ٹوٹنے تک لے جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’سندھ میں پیپلز پارٹی خاموش ہے، مسلم لیگ ن کا اتنا اثر نہیں ہے اور پی ٹی آئی والے آپس میں لڑے ہوئے ہیں۔ کبھی کبھار ایم کیو ایم والے کوئی سیاسی سرگرمی کرتے ہیں تو خبر بنتی ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ میڈیا کو ہدایت ہو کہ سیاسی خبروں کو زیادہ کور نہیں کرنا۔ اس وجہ سے مقامی میڈیا چھوٹی خبروں کو بڑا کر کے پیش کرتا ہے۔‘

ملک کے دیگر شہروں کی طرح کراچی میں قدرتی گیس کی کمی کے باعث معمولی سردیاں بھی شدید محسوس کی جا رہی ہیں جب کہ گیس کی کمی پر صنعت کار اور عام شہری سراپا احتجاج ہیں۔

دوسری جانب یہ معمول والی اور بغیر ریکارڈ ٹوٹنے والی سردی سے کھلی جگہوں پر کام کرنے والے مزدوروں، شہر کے بے گھر افراد اور خاص کر کھلے آسمان تلے رہنے والے گھرانوں کی خواتین اور بچے اور شہر کی پانچ سو سے زائد بنیادی سہولتوں سے محروم کچی آبادیوں میں رہنے والے کم آمدن والے گھرانے شدید متاثر ہیں۔

اسلام آباد کی طرح کراچی میں بے گھر افراد اور لاوارث خواتین کے لیے سرکاری طور پر کوئی بڑا شیلٹر ہاؤس موجود نہیں، جہاں بے گھر افراد یا لاوارث خواتین کو ٹھہرایا جاسکے۔ فیصل ایدھی کے مطابق ایدھی شلیٹر ہاؤس میں پانچ ہزار بے گھر افراد مقیم ہیں جب کہ شہر میں بے گھر افراد کی تعداد ہزاروں میں ہوسکتی ہے، جس کے حوالے سے سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔

شہر میں شدید موسم کے دوران ہونے والا فلاحی کام حالیہ سردیوں کے دوران بھی جاری ہے۔ منگل کی رات کو ڈپٹی کمشنر کراچی ساؤتھ ارشاد علی سوڈھر نے معروف اداکار فرحان علی آغا کے ساتھ کراچی کینٹ سٹیشن، سول ہسپتال، عبداللہ شاہ غازی کے مزار اور دیگر مقامات پر رہنے والے بے گھر افراد اور خواتین میں کمبل اور گرم کپڑے تقسیم کیے۔

اس موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے ارشاد علی سوڈھر نے کہا کہ ’بڑھتی ہوئی سردی سے بچاؤ کے لیے بے گھر افراد کو گرم کپڑے دینا ہم سب کا فرض ہے۔ معاشرے کے خوش حال طبقے کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ضرورت مند لوگوں تک کمبل، لحاف اور گرم کپڑے پہنچائیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات