پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں برفانی تودے گرنے سے 59 ہلاک

حکام کے مطابق سب سے زیادہ تباہی وادی نیلم کے علاقے سرگن ویلی میں ہوئی جہاں دو دیہات میں کم از کم 43 افراد ہلاک ہوئے۔ ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں حکام کے مطابق برفانی تودے گرنے سے گذشتہ دو روز کے دوران کم از کم 59 افراد ہلاک اور 42 زخمی ہو گئے ہیں۔

حکام کو خدشہ ہے کہ ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ ابھی تک کئی افراد لاپتہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ تاحال سرگن ویلی کے کئی علاقوں میں ابھی تک رابطہ نہیں ہو سکا۔ 

حکام کے مطابق سب سے زیادہ تباہی وادی نیلم کے علاقے سرگن ویلی میں ہوئی جہاں دو دیہات میں کم از کم 43 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ 

ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ متاثرہ علاقوں میں ریسکیو آپریشن جاری ہے اور اس میں پاکستانی فوج کے ہیلی کاپٹر استعمال ہو رہے ہیں جب کہ ایس ڈی ایم اے، پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے علاوہ مقامی لوگوں کی ایک بڑی تعداد بھی امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری پہلی ترجیح برف میں پھنسے لوگوں کو نکالنا، زخمیوں کو ہسپتالوں میں اور خواتین اور بچوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنا ہے۔ یہ کام سڑک کے ذریعے ممکن نہیں۔‘

راجہ فاروق حیدر کے مطابق: ’پاکستان فوج کے علاوہ اقوام متحدہ سے ہیلی کاپٹر کرائے پر حاصل کرنے کی بھی کوشش کی جارہی ہے تاکہ لوگوں کو جلد از جلد محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا سکے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سٹیٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (ایس ڈی ایم اے) کے اعداد و شمار کے مطابق ضلع نیلم میں 57 جب کہ راولاکوٹ اور سدھنوتی کے اضلاع میں ایک ایک شخص ہلاک ہوا ہے۔ ضلع نیلم کے مختلف علاقوں میں 42 افراد زخمی ہونے کے علاوہ 47 گھر مکمل جب کہ 78 گھر جزوی طور پر تباہ ہوئے۔ علاوہ ازیں 17 دکانیں اور سات گاڑیاں بھی برفانی ریلوں کی نذر ہو گئیں جب کہ سرگن میں ایک مسجد بھی تباہ ہوئی ہے۔

سرگن کے گاؤں سیری بالا سے مقامی رہائشی خیرالزمان راشد نے ٹیلی فون پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ معمول سے کئی گنا زیادہ برف باری کی وجہ پہلے ہی برفانی تودوں کا اندیشہ تھا اور اسی خطرے کے پیش نظر لوگ نسبتاً محفوظ جگہوں پر چلے گئے تھے، تاہم ہفتے کے روز ڈھائی سے تین بجے کے دوران کئی مقامات پر بیک وقت برفانی تودے گرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور دو مقامات پر ان گھروں کو بھی ساتھ بہا لے گیا جہاں لوگ جمع تھے۔

انہوں نے مزید بتایا: ’سیری بالا گاؤں کے دو گھروں میں 22 لوگ برفانی تودے تلے دب گئے تھے۔ 15 گھنٹے بعد ایک گھر سے دو بچیوں کو زندہ نکالا گیا جب کہ اب تک کل 13 لاشیں نکالی جا چکی ہیں اور سات کی تلاش جاری ہے۔‘

اسی گاؤں کے 60 سالہ عبدالرحمٰن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ اپنی بیوی، دو بہوؤں اور پانچ پوتے پوتیوں کو چھوڑ کر پڑوسیوں کی خبر لینے کے لیے نکلے ہی تھے کہ گلیشیئر آ گیا۔ رات 12 بجے تک کوشش کرتے رہے مگر صرف ایک بہو کو زخمی حالت میں نکال سکے، صبح باقیوں کی لاشیں ملیں۔‘

سرگن ویلی شاردہ کے قریب ایک تنگ وادی ہے جو چاروں اطراف سے پہاڑوں میں گھری ہے۔ ہر سال برف باری کے بعد یہاں بڑی تعداد میں برفانی تودے گرتے ہیں۔ اس سے قبل فروری 2005 میں سرگن ہی کے علاقے میتاں والی سیری میں برفانی تودے سے کم ازکم 46 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

حکومت ان حادثات سے بچنے کا انتظام کیوں نہیں کرتی؟ اس سوال کے جواب میں وزیر اعظم فاروق حیدر نے بتایا کہ ’حکومت نے ایگرویل پراجیکٹ کے تحت ان علاقوں سے لوگوں کو منتقل کرنے کا منصوبہ شروع کیا تھا تاہم لوگ اپنی زمینوں سے لگاؤ کی وجہ سے یہ علاقہ چھوڑنے کو تیار نہیں۔‘

برفباری کے بعد سرگن سمیت نیلم ویلی کے کئی علاقوں میں سڑکیں بند جب کہ مواصلات کا نظام جزوی طور پر متاثر ہوا ہے جس کی وجہ سے اس علاقے میں امدادی کاروائیوں میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا