لاہور ہائی کورٹ کے پانچ اہم فیصلے جنہوں نے سیاسی منظرنامہ تبدیل کیا

ملکی سیاست میں بظاہر لاہور ہائی کورٹ کو دیگر صوبوں کی ہائی کورٹس سے زیادہ اہمیت حاصل رہی ہے۔ گذشتہ ایک دہائی میں بھی لاہور ہائی کورٹ کے بعض ایسے فیصلے ہیں جنہوں نے ملک کے سیاسی اور سماجی معاملات پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔

17 مارچ 2007 کو ایک وکیل لاہور ہائی کورٹ کی عمارت کے باہر اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان کی معطلی کے خلاف احتجاج میں شامل۔ ملکی سیاست میں بظاہر لاہور ہائی کورٹ کو دیگر صوبوں کی ہائی کورٹس سے زیادہ اہمیت حاصل رہی ہے (اے ا یف پی)

ویسے تو پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے خبروں کی زینت بنتے رہتے ہیں لیکن لاہور ہائی کورٹ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کے کئی اہم فیصلوں نے ملک کی سیاست کے منظرنامے تبدیل کیے ہیں۔

ملکی سیاست میں بظاہر لاہور ہائی کورٹ کو دیگر صوبوں کی ہائی کورٹس سے زیادہ اہمیت حاصل رہی ہے۔ سب سے زیادہ سیاسی مقدمات شاید انہیں عدالتوں تک پہنچنے ہیں۔ گذشتہ ایک دہائی میں بھی لاہور ہائی کورٹ کے بعض ایسے فیصلے ہیں جنہوں نے ملک کے سیاسی اور سماجی معاملات پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ وہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا ہو یا جسٹس قیوم کے سابق صدر آصف زرداری کے خلاف فیصلہ سنائے جانے کے بعد شہباز شریف کے ساتھ فیصلہ پر اثر انداز ہونے کی مبینہ ریکارڈنگ ہو یہ سبھی کچھ لاہور ہائی کورٹ سے ہی منسوب ہے۔

ان فیصلوں پر ردعمل قدرتی طور پر ہمیشہ ملا جلا رہا۔

انڈپینڈنٹ اردو نے پانچ ایسے فیصلے منتخب کیے ہیں جن کے سنائے جانے کے بعد کئی اہم سیاسی و قانونی سوالات پیدا ہوئے ہیں۔ سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کی سزا موت کا ختم کیا جانا ایسا ہی ایک فیصلہ مانا جا رہا ہے۔

1- صدر زرداری کے دو عہدے

لاہور ہائی کورٹ نے مئی 2011 میں اس وقت کے صدر مملکت آصف علی زرداری کے دو عہدوں سے متعلق کیس پر تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ آصف علی زرداری کو فوری طور پر ایک عہدہ چھوڑ دینا چاہیے۔ اس وقت سابق صدر پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بھی تھے۔

لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ کی طرف سےجاری کیے جانے والے اس فیصلے میں عدالت نے ہدایت دی تھی کہ صدر پاکستان جتنی جلدی ممکن ہو سکے خود کو سیاسی عہدے سے الگ کر لیں۔ اس فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ایوانِ صدرکو کسی سیاسی جماعت کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنانا، اس کے تقدس، وقار اور صدارتی عہدے کی غیرجانبدار حیثیت کے منافی ہے۔

مقدمہ کی سماعت کے دوران ہی پیپلز پارٹی کے وکلا کی ٹیم نے احتجاجاً عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ بعد ازاں فیصلہ آنے پر بھی پارٹی نے کھل کر ردعمل کا اظہار کیا تھا کہ صدر مملکت کے عہدے سے متعلق عدالت ایسا کوئی حکم جاری نہیں کر سکتی۔

2۔ آسیہ بی بی

لاہور ہائی کورٹ نے 2014 میں توہین مذہب کے مقدمہ میں آسیہ بی بی کی سزائے موت کے خلاف دائر اپیل خارج کرتے ہوئے ان کی سزا برقرار رکھی تھی۔ آسیہ بی بی کو2010 میں ضلع ننکانہ کی عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی۔ جسٹس مولوی انوارالحق اور جسٹس شہباز رضوی پر مشتمل دو رکنی بنچ نے اس فیصلہ کے خلاف اپیل پر اپنے فیصلے میں مقامی عدالت کی جانب سے دی گئی سزا کو برقرار رکھا تھا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کو اس مقدمے سے بری کیا اور ساتھ ہی مقدمے کی کمزوریوں پر کھل کر بات کی اور ایک مرتبہ پھر سول سوسائٹی اور نامور وکلا نے لاہور ہائی کورٹ پر اس وجہ سے تنقید کی کہ یہی ساری خامیاں عدالت عالیہ نے نظر انداز کیوں کیں۔

3۔ الطاف حسین پابندی

حالانکہ متحدہ قومی موومنٹ بنیادی طور پر کراچی کی جماعت تھی اور زیادہ اثر و رسوخ وہیں پر ہے لیکن لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس مظہر اقبال سدھو اور جسٹس ارم سجاد گل پر مشتمل تین رکنی بنچ نے اس کے قائد الطاف حسین پر تقریروں کے ذریعے انتشار پھیلانے کے الزام سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی تھی۔ 2015 میں الطاف حسین کے خلاف درخواستیں ایڈووکیٹ عبداللہ ملک، ایڈووکیٹ آفتاب، ایڈووکیٹ مقصود اور دیگر کی جانب سے دائر کی گئی تھیں، جن میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ الطاف حسین نے اپنی تقاریر میں پاک فوج اور ریاستی اداروں کے خلاف انتشار آمیز بیان بازی کی، لہذا ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ درج کیا جائے۔ عدالت عالیہ نے الطاف حسین کی کوریج، ان کے بیانات اور تصاویر نشر یا شائع کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس فیصلے پر بعض حلقوں نے یہ اعتراض اٹھایا تھا کہ عدالتوں کو سیاسی معاملات سے اپنے آپ کو دور رکھنا چاہیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

4۔ شریف خاندان کے مقدمات

لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے چوہدری شوگر ملز کیس میں گذشتہ سال کے اواخر میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے جسمانی ریمانڈ پر نیب حراست کے دوران ضمانت منظور کی اور انہیں علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کی بھی اجازت دی۔ اس فیصلے پر حکمران جماعت تحریک انصاف زیادہ خوش دکھائی نہیں دی۔

اسی مقدمے کی دوسری ملزمہ مریم نواز کو جب لاہور ہائی کورٹ کے اسی بنچ نے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تو اب کی بار تنقید کا دائرہ مزید وسیع ہوگیا۔ اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ نے آشیانہ ہاؤسنگ سکیم اور رمضان شوگر ملز میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم بھی دیا تو یہ فیصلہ بھی مخالف سیاسی قوتوں کو پسند نہ آیا۔

شریف خاندان سے متعلق مقدموں میں سب سے زیادہ کھل کر بات تب ہوئی جب نیب کی ایک ٹیم اپوزیشن لیڈر پنجاب حمزہ شہباز کو گرفتار کرنے ان کی رہائش گاہ پہنچی تو اس وقت کے چیف جسٹس سردار محمد شمیم خان نے ہفتہ کو اپنے چیمبر میں مختصر سماعت کرتے ہوئے نیب کو گرفتاری سے عارضی طور پر روک دیا تھا۔

5۔ مشرف غداری مقدمہ

لاہور ہائی کورٹ کا حالیہ فیصلہ جس میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو سزائے موت سنانے والی خصوصی عدالت کو نہ صرف غیر آئینی قرار دیا گیا بلکہ مشرف کے ٹرائل اور سزا کو بھی کالعدم کر دیا۔ اس کے علاوہ عدالت عالیہ نے کریمنل لا سپیشل کورٹ ترمیمی ایکٹ 1976 کی دفعہ 9 کو بھی کالعدم کر دیا جو کہ خصوصی عدالت کو یہ اختیار تفویض کرتی تھی کہ وہ ملزم کی غیر حاضری میں بھی قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے سزا سنا سکتی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ کے مختصر فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 6 کے تحت ترمیم کا اطلاق ماضی سے نہیں کیا جا سکتا۔ یہ فیصلہ بھی آج کل شدید تنقید کی زد میں ہے اور نہ صرف سول سوسائٹی بلکہ اپوزیشن کی مختلف سیاسی جماعتیں اور وکلا برادری نے بھی اس پر مختلف طریقوں سے تنقید کی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست