’پاکستان کے پاس کسی کے خلاف کسی کا ساتھ دینےکا آپشن نہیں‘

سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کا کہنا ہے کہ امریکی حملے میں ایرانی جنرل کی ہلاکت سے ایک بڑی مثال قائم کی گئی ہے  جس کی اجازت کسی بین الاقوامی قانون میں نہیں۔

سابق وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ رکن قومی اسمبلی حنا ربانی کھر کا کہنا ہے کہ امریکی حملے میں ایرانی جنرل کی ہلاکت سے بڑی مثال قائم کی گئی ہے جس کی  اجازت کوئی بھی بین الاقوامی قانون نہیں دیتا۔

انڈیپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اس کی مذمت کرنے کی ضرورت ہے۔   

حنا ربانی خبر سے سوال جواب مندرجہ ذیل ہیں۔

سابق وزیر خارجہ کے طور پر آپ ایران امریکہ تنازع کا اختتام کیا دیکھ رہی ہیں؟ کیا امریکہ 2001 کی طرح پاکستان پر’ڈو مور‘ کا دباؤ ڈالے گا؟ پاکستان اگر کھل کرامریکہ کا ساتھ دیتا ہے تو خطے میں پاکستان کی پوزیشن کیا بنے گی؟

پاکستان کے پاس یہ آپشن ہے ہی نہیں کہ وہ اپنے ہمسایہ ملک کے خلاف کسی کا بھی ساتھ دے۔ ایک ڈرون حملے کے ذریعے کسی ملک کے حکومتی عہدیدار کو ہلاک کیا گیا ،یہ ایک بڑی مثال قائم کی گئی ہے جس کی  اجازت  کوئی بھی بین الاقوامی قانون نہیں دیتا اور اگر ہم اس کی مذمت نہیں کریں گے تو یہ کل کو کسی بھی ملک کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے پاس امریکہ کا ساتھ دینے کا کوئی آپشن ہی نہیں ہونا چاہیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکی سیکرٹری دفاع نے ایران امریکہ تنازع پر پاکستانی وزیر خارجہ کی بجائے آرمی چیف کو فون کیوں کیا؟

اس کا جواب وزیر خارجہ شاہ محمد قریشی ہی دے سکتے ہیں۔

پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی جانب سے آرمی ترمیمی بل کی حمایت کو ڈیل کا حصہ سمجھا جارہا ہے، بل سے پہلے آصف علی زرداری سمیت دیگر سیاسی رہنمائوں کی ضمانتیں بھی منظور کی گئیں، کیا یہ درست ہے؟

آرمی ترمیمی بل کی حمایت کو ڈیل کہنا دراصل حکومت کی جانب سے دیا گیا ایک بیانیہ ہے جو کہ ہر سیاسی جماعت اور جمہوری نظام کے لیے انتہائی غیر مناسب رہا ہے ۔

ہر چیز میں این آر او یا  ڈیل کہنا صحیح نہیں ، آپ ایک جگہ پولیٹیکل ویکٹمائزیشن کہتے ہیں پھر دوسری جگہ ڈیل کہتے ہیں ،حکومت نے ان چیزوں میں بری طرح پھنسا دیا ہے، یہ انتہائی غلط بیانیہ ہے ۔ میرے خیال میں پاکستان کو اب ان چیزوں سے باہر نکلنا چاہیے۔ ہمارے پہلے ہی بہت مسائل ہیں، ہم جنوبی ایشیا  میں بزنس انسانی ترقی اور سوشل سیکٹر میں سب سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہمیں ان چیزوں پر دیہان دینا چاہیے جس سے عوام کو فائدہ ہو۔

بلاول بھٹو کو الیکشن کمشن میں طلب کیا گیا، کیا یہ پیپلز پارٹی کو کورنر کرنے کا کوئی اور طریقہ تو نہیں ؟

یہ سب جس طرح ہوا اس میں اب کوئی شک نہیں رہتا کہ حکومت کی جانب سے کیا کیا جارہا ہے۔ میری نظر میں  1980 کی سیاست پاکستان تحریک انصاف کے نام ہو گئی ہے۔ اسی کی دہائی میں ایک سیاست ہوتی تھی جس میں مخالفین مخالفین رہتے تھے کوئی قانون سازی مشاورت کے ساتھ نہیں ہوتی تھی، پی ٹی آئی نے اس کا پھر سے بیج بودیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست