کیا روبوٹ اور جنسی تسکین کے آلات نسل انسانی کا مستقبل ہیں؟

ایک ٹیکنالوجی ایسی بھی ہے جس میں ان سیکس روبوٹس کو غیر انسانی نمونوں پر بنایا جاتا ہے۔

نوجوان مصنوعی حقیقت والی فلم دیکھتے ہوئے

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، انسانوں میں جنسی تعلقات کی نوعیت اب پہلے جیسی نہیں رہی۔ ہم جسمانی تعلق سے وابستہ مختلف انقلابات سے گزر رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کا شکریہ جس نے ہمارے لیے ایک دوسرے سے رابطہ رکھنا آسان تو بنایا لیکن اس کے نتیجے میں تمام پرانے طریقے بدل دیے۔

 اب ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ٹیکنالوجی کے ذریعے جنسی تعلقات کی دنیا میں تبدیلی کی ایک دوسری لہر شروع ہونے جا رہی ہے اور یہ لوگوں کے جنسی رجحانات کو مکمل طور سے بدل کر رکھ دے گی۔

وہ لوگ جنہیں ڈیجی سیکشولز(جنسی رجحانات میں ٹیکنالوجی پسند) کہا جاسکتا ہے وہ اب اپنا رخ اس نئی ٹیکنالوجی کی طرف کر رہے ہیں۔

خیال کیا جا سکتا ہے کہ روبوٹ ورچوئل ٹیکنالوجی (مصنوعی، سہ جہتی بصری ٹیکنالوجی) اور اپنے جنسی افعال کے دوران اپنے تاثرات کا اظہار کرنے والی مختلف مشینیں جنہیں ٹیلی ڈلڈونکس کہا جاتا ہے، مستقبل میں انسانی نسل کی جنسیت کی جگہ لینے جا رہے ہیں۔

ڈی جی سیکشوئیلٹی کیا ہے؟

اس تحریر میں ہم اس لفظ کے دو مطلب واضح کریں گے۔ اس کا پہلا مطلب وسیع تر تناظر میں یہ بتایا جا سکتا ہے کہ جنسی تعلقات میں جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال پسند کیا جائے۔ لوگ ایک دوسرے کو ٹیکسٹ میسج کرتے ہیں، سنیپ چیٹ اور سکائپ کا استعمال کرتے ہیں یا نئے لوگوں سے ملنے کے لیے ٹنڈر اور  بمبل جیسے سافٹ ویئر استعمال کرتے ہیں۔ اب یہ سوچنا بھی عجیب لگتا ہے کہ ان چیزوں نے معاشرے میں کیسی تیزی سے اپنی جگہ بنائی ہے اور ہماری زندگیوں سمیت جنسی رویوں پربھی کتنا گہرائی تک یہ اثر پذیر ہو چکی ہیں۔

لوگ اپنے رشتوں میں ٹیکنالوجی کا استعمال کس طرح سے کرتے ہیں، اسے جاننا بہت دلچسپ ہو گا۔ اس تحقیق میں ہم نے جانا کہ لوگ ٹیکنالوجی کی مختلف چیزوں سے اپنی جذباتی وابستگی ظاہر کر رہے تھے۔

ہمیں یہ سب دیکھ کے حیرت بالکل نہیں ہوئی کیونکہ جس طرح انسانی تعلقات میں لوگ ایک دوسرے سے دلی قربت کا اظہار کرتے ہیں اسی طرح ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے بھی وہ کئی چیزوں سے جڑ جاتے ہیں۔  پھر اس وابستگی کی وجہ سے وہ مختلف جذباتی کیفیات کا سامنا بھی کر رہے ہوتے ہیں۔  یہ تو وہ مطلب تھا جو عام طور پر ’ڈیجی سیکشولز‘ کی اصطلاح کا لیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ یہ لفظ بعض اوقات دوسرے معنوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ لوگ جن کے جنسی میلانات کسی نہ کسی طرح جنسی کھلونوں سے وابستہ ہوں یا انہیں جدید جنسی ٹیکنالوجی کا شوق ہو تو وہ سب بھی ڈیجی سیکشولز کہلاتے ہیں۔

سائنس دانوں کے مطابق یہ ٹیکنالوجی جنسی تسکین کے میدان میں اپنی مختلف مہارتوں کی بنا پر اس قدر خود کفیل ہوتی ہے کہ اس کی موجودگی میں کسی انسانی ساتھی کی ضرورت محسوس نہیں کی جا سکتی۔

سیکس روبوٹ اس رسوائے زمانہ ٹیکنالوجی کی دوسری نسل کا وہ حصہ ہیں جس کے بارے میں ہم آئے روز پڑھتے رہتے ہیں۔ اگرچہ ابھی یہ مکمل طور سے بن نہیں پائے لیکن ذرائع ابلاغ پر، فلموں اور ٹیلی ویژن میں ان کا چرچا بار بار ہوتا رہتا ہے۔ کچھ اداروں نے ان کے مختلف ماڈل بھی عام افراد کے دیکھنے کے لیے بنائے لیکن وہ ان توقعات کے قریب بھی نہیں پھٹکتے جوان جنسی ربوٹوں سے ایک عام انسان رکھ سکتا ہے۔ اب تک جو چیزیں اس روبوٹ کے نام پر انہوں نے بنائی ہیں وہ عموماً مکروہ ہی دکھائی دیتی ہیں۔

سیکس روبوٹس کی نئی تشریح

چھ کمپنیاں ایسی بھی ہیں جو اس وقت بالکل انسانوں جیسے دکھنے والے سیکس روبوٹس پر کام کر رہی ہیں، لیکن ان کی تشکیل میں فی الحال چند رکاوٹیں ہیں جن پر قابو پانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ایسی ٹیکنالوجی جس میں روبوٹ خود سے چل سکے اور اپنی عقل لڑا کر بات کر سکے اسے ٹھیک سے بنا لینا تھوڑا مشکل ہے۔

اس سے بھی زیادہ دلچسپ چیز ٹیکنالوجی کی ایک اور شکل ہے۔ اس میں سیکس روبوٹس کو غیر انسانی ڈیزائنز پر بنایا جانا ہے۔

موجودہ دور میں جب ورچوئل ریئلٹی آہستہ آہستہ ترقی کر رہی ہے، سیکس انڈسٹری میں بھی ورچوئل رئیلٹی کی تکنیک کو فحش فلموں کے لیے استعمال کرنے کے نئے طریقے ڈھونڈے جا رہے ہیں۔ اس طرح کی ویڈیو گیمز بھی بنائی گئی ہیں جن میں کھیلنے والا اپنے آپ کو حقیقت میں جنسی روبوٹ کے ساتھ محسوس کرتا ہے۔

اس مضمون کے لیے کام کرنے والے سائنسی تحقیق کاروں میں سے ایک کے مطابق روبوٹس کے ساتھ لوگوں کی جنسی تعلقات کی نوعیت اس قدر عجیب ہوتی ہے کہ اسے عام الفاظ میں بیان کرنا بھی مشکل ہے۔ لوگ ان کے ساتھ واقعی میں جڑے رہنا چاہتے ہیں اور وہ اسے ایک عام سے تعلق کے طور پر ہی بیان کرتے ہیں۔

2016 کے دوران مصنوعی ماحول پر ریسرچ کرنے والی سلویا پین کا کہنا تھا کہ ورچوئل ٹیکنالوجی انسانی دماغ میں بالکل ایسے ہی تاثر پیدا کرتی ہے جیسے وہ حقیقی طور پر اس جگہ موجود ہے جو اسے دکھائی جا رہی ہے۔ اس سہ جہتی موجودگی کا احساس، تین اطراف سے آتی آوازیں اور آنکھ کے پردے کے سامنے  ایک مکمل منظر کی عکاسی اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے والوں کے دماغ میں ایسا تاثر قائم کرتی ہے کہ جیسے یہ سب کچھ بالکل حقیقی ہے۔

 اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مصنوعی ماحول میں جانے والا انسان بالکل ویسی حرکتیں کرنا شروع ہو جاتا ہے جیسا وہ تب کرتا جب فی الحقیقت وہ اس جگہ جسمانی طور پر موجود ہوتا۔

گمان کیا جاتا ہے کہ مزید ترقی کرنے کے بعد یہ سائنسی مہارت جنسی تعلق کو اس قدر بدل دے گی کہ لوگ انسانی ذرائع پر انحصار کرنا چھوڑ دیں گے، یا کم از کم لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد انہی ذرائع پر انحصار کرے گی۔

سامنے کی بات کی جائے تو آنے والی دہائیوں میں جب یہ ٹیکنالوجی زیادہ ترقی یافتہ اور قابل رسائی ہوگی تو لوگ جنسی تعلقات یا قربت کے لیے بھی اس ٹیکنالوجی پر ہی بھروسہ کریں گے۔

اور جوں جوں اس انڈسٹری پر ان کا انحصار بڑھتا جائے گا ویسے ویسے یہ لفظ جسے ہم ’ڈیجی سیکشولز‘ کہہ رہے ہیں، یہ ایک نئی جنسی صنعت میں تبدیل ہوتا جائے گا۔

ڈیجی سیکشوئل وہ انسان ہوتا ہے جو جنسی روبوٹ یا ورچوئل ریئلٹی کی حامل فحش فلموں جیسی مصنوعی چیزوں کو اپنےجنسی تلذذ کا ایک ضروری حصہ سمجھتا ہے۔

ایسے لوگ جن کے جنسی رجحانات عام لوگوں سے الگ ہوں انہیں عام طور پر معاشرے میں مختلف پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ 'ڈیجی سیکشولز' کو بھی کوئی پناہ نہیں ملے گی۔ 

 انہیں بھی انٹرنیٹ پراور میڈیا میں بہت منفی رویوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مختلف شدت پسند ان کا مذاق اڑانے یا ان پر جسمانی تشدد کے لیے بھی تیار رہیں گے۔

 اس مرتبہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہو گا۔ ہمارا معاشرہ ہم جنس پرستوں، مخنثوں، جنس تبدیل کرانے والوں اور دوسرے بہت سے الگ طرح کے جنسی رجحان رکھنے والے لوگوں کو پہلے ہی الگ کر چکا ہے،  وہی سلوک 'ڈیجی سیکشولز' کے ساتھ بھی کیا جائے گا۔

اصل میں جیسے جیسے وقت گزرا ہم نے سیکھا کہ لوگوں کی مختلف اور متنوع جنسی پہچان کو ہم نے کس طرح قبول کرنا ہے، اور ہمیں ان کے لیے اپنے رویے کس طرح کشادہ کرنے ہیں۔

موجودہ صورتحال میں جیسے جیسے جنسی ٹیکنالوجی مزید ترقی کرتی ہے ہمیں اسے استعمال کرنے والوں کے لیے اور اسے پسند کرنے والوں کے لیے اپنے دماغوں کو مزید وسعت دینی ہو گی۔

ہمیں اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ ٹیکنالوجی صحیح معنوں میں کیسے جنسی روبوٹ تیار کرے گی۔ اس کے علاوہ بھی ایسی بہت سی چیزیں ہیں جنہیں یقینی طور پر سائنسی ترقی کے اس قدم سے پہلے طے کیا جانا ضروری ہے۔

ان میں سب سے اہم بات یہ ٹھہرے گی کہ اس ٹیکنالوجی کے ساتھ ہمارا رویہ کیا ہو گا؟ اس صورت حال میں عورتیں مردوں سے اور مرد عورتوں سے کیسا سلوک کر رہے ہوں گے؟ کیا وہ ایک دوسرے پر انحصار کریں گے؟

 یقینی طور پر مستقبل میں ایسی چیزیں پسند کرنے والے لوگوں کو معاشرے سے ایک نئے خطرے اور نفرت کا سامنا ہو گا لیکن ہر نئی چیز جب سامنے آتی ہے تو اس سے متعلق پسند یا ناپسندیدگی کے رویے بھی ایسے ہی تشکیل پاتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی