تین افریقی ملکوں میں ملیریا کی پہلی ویکسین کا ٹرائل

ملیریا کی یہ نئی ویکسین صرف 40 فیصد ہی موثر ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کوشش کرنا ضروری ہے کیونکہ ملیریا کے خلاف پیش رفت رک گئی ہے۔

10 دسمبر 2019 کو ایک خاتون ملاوی کے قصبے مگووی کےایک کلینک میں اپنے بچے کو ملیریا کی ویکسین لگوا رہی ہیں (اے ایف پی) 

دسمبر کے ایک برساتی دن میں افریقی ملک ملاوی کے قصبے مگووی کے ایک کلینک میں شیرخوار بچوں کو ملیریا کی پہلی اور واحد ویکسین لگائی جارہی ہے۔ کینیا اور گھانا کے بعد ملاوی وہ تیسرا افریقی ملک ہے جہاں تاریخ کی سب سے جان لیوا بیماری ملیریا کی ویکسین کا یہ پائلٹ پراجکٹ چل رہا ہے۔

دوسری بیماریوں کے لیے دستیاب ویکسینزکے برعکس، جو تقریباً مکمل تحفظ فراہم کرتی ہیں، ملیریا کی یہ نئی ویکسین صرف 40 فیصد ہی موثر ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کوشش کرنا ضروری ہے کیونکہ ملیریا کے خلاف پیش رفت رک سی گئی ہے، بیماری کے موجودہ علاج کے خلاف مدافعت بڑھ رہی ہے اور عالمی کیسز میں کمی نہیں آ رہی۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق امید کی جارہی ہے کہ اس نئی ویکسین سے چھوٹے بچوں کو ان کی زندگی کے سب سے خطرناک حصے میں تحفظ ملے گا۔ ہار سال چارلاکھ سے زائد افراد مچھر کے کاٹنے سے ہونے والے ملیریا کی وجہ سے ہلاک ہوتے ہیں۔ ان میں سے دو تہائی پانچ سال کی عمر سے کم ہوتے ہیں اور زیادہ تر افریقہ کے رہائشی ہیں۔

مگووی میں سات ماہ کی چیریٹی ننگوارے کو ویکسین کا ٹیکہ دسمبر کے ایک برساتی دن پر ایک کلینک میں لگا۔ پہلے تو وہ تجسس سے دیکھتی رہی لیکن جب سوئی ان کی ٹانگ میں گئی تو فوراً ہی رونا شروع کر دیا۔

چیریٹی کی والدہ ایستھر گونجانی کو خود ہر سال ملیریا ہوتا ہے لہٰذا وہ اپنی بیٹی کے درد، بخار اور کپکپی سے واقف ہیں اور یہ بھی جانتی ہیں کہ جب ان کا کوئی بچہ اس سے بیمار ہوتا ہے تو انھیں ایک ہفتے تک کام سے چھٹی کرنی پڑتی ہے۔

انھوں نے اے پی کو بتایا: ’میں اس سب سے بہت خوش ہوں۔ انھوں (کلینک والوں) نے سمجھایا کہ یہ پرفیکٹ نہیں مگر مجھے تقین ہے اس سے تکلیف میں کمی آئے گی۔‘

یہاں ملیریا سے بچنا ناممکن ہے خاص طورپر پانچ ماہ طویل بارش کے موسم میں۔ چائے کے باغات، گنے اور مکئی کے کھیتوں کے قریب بنے کچے گھروں کے باہر پانی کھڑا رہتا ہے جہاں مچھر انڈے دیتے ہیں۔ 

ٹومالی گاؤں سے سب سے نزدیک کلینک دو گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ طبی مدد ملنے میں جتنا زیادہ وقت لگتا ہے، ملیریا اتنا ہی خطرناک ہوتا جاتا ہے۔ کلینک سے ٹیمیں مہینے میں ایک یا دو بار یہاں چکر لگاتی ہیں اور ملیریا اور دوسری بیماریوں کی ویکسینز بھی کولروں میں ساتھ لاتی ہیں۔
 

مقامی ہیلتھ ورکر ڈیزی چکوندے کے مطابق بارش کے موسم میں ان کا زیادہ وقت ملیریا کے علاج میں ہی لگتا ہے۔ ’اگر یہ ویکسین کام کرتی ہے تو ہم پر بوجھ کم ہو جائے گا۔‘

ڈوریگا ایفرم نے بڑے فخر سے بتایا کہ جب ان کی پانچ ماہ کی بیٹی گریس کو ٹیکہ لگا تو وہ بالکل بھی نہیں روئی۔ انھوں نے بتایا کہ جن اب کو ویکسین کے بارے میں پتہ چلا تو ان کا پہلا خیال تھا کہ ’تحفظ اب ادھر ہے۔‘

ہیلتھ ورکروں نے انھیں بتایا کہ ویکسین انسداد ملیریا ادویات اور کیڑوں کو دور رکھنے والے سپرے لگے اُس نیٹ کی جگہ نہیں لی رہی جو وہ ہر روز شام ہوتے ہی لگا لیتی ہیں۔ انھیں اب بھی یہ سب احتیاط کرنی ہوگی۔

انھوں نے بتایا: ’ہم شام کا کھانا بھی نیٹ کے اندر ہی کھاتے ہیں تاکہ مچھروں سے بچ سکیں۔‘

اس نئی ویکسین کو بنانے میں تین دہائیوں کی ریسرچ لگی ہے۔ یہ ملیریا کا سبب بننے والی پانچ عام اور خطرناک پیراسائٹ نسلوں کے خلاف کام کرتی ہے۔

پیراسائٹ کا پیچیدہ لائف سائیکل ایک بڑا چیلنج ہے۔ یہ انفیکشن کے مختلف مراحل میں شکل بدلتا ہے اور اسے ٹارگٹ کرنا جراثیموں سے مشکل ہوتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

موسکیرکس نامی یہ ویکسین گلیکسو سمیتھ کلایئن نے فلاحی ادارے پاتھ (PATH) کی مدد سے بنائی ہے۔ پاتھ کے ملیریا ویکسین انیشیئٹو کی ڈائریکٹر ایشلی برکیٹ نے کہا: ’ہمارے پاس عام استعمال میں پیراسائٹس کے خلاف کوئی ویکسین نہیں۔ یہ ایسا کام ہے جو ہم نے پہلے نہیں کیا ہوا۔‘

انفیکشن زدہ مچھر کے کاٹنے سے سپوروزوئٹس (sporozoites) نامی نابالغ پیراسائٹ خون میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اگر وہ جگر تک پہنچتے ہیں تو وہاں بالغ ہوکر بڑھ جاتے ہیں اور پھر واپس خون میں داخل ہوکر ملیریا کے تکلیف دہ علامات ظاہر کرتے ہیں۔  

موسکیرکس پراسائٹ کا ہی ایک حصہ استعمال کرتی ہے، ایک ایسا پروٹین جو صرف سپوروزوئٹ کی سطح پر ہی پایا جاتا ہے۔ اسے ٹارگٹ کرنے کا مقصد انفیکشن کے جگر میں جا کر بڑھنے کے مرحلے کو روکنا ہے۔ جب ایک ایسے بچے کو مچھر کاٹ جائے جس کو ویکسین لگی ہو تو جسم کی قوت مدافعت کو پیراسائٹ کو پہچان لینا چاہیے اور اس کے خلاف اینٹی باڈی بنانا شروع کر دینا چاہیے۔

سائنس دان اس کے متبادل علاج کی تلاش میں بھی ہیں۔ ایک اور تجرباتی ویکسین پر بھی کام جاری ہے جس میں ملیریا کے پورے پیراسائٹ کا استعمال ہوا ہے تاہم اسے اتنا کمزور کیا ہوا ہے کہ وہ لوگوں کو بیمار نہ کر سکے۔ کمپنی سنیریا اس ویکسین کو بالغ افراد پر ٹیسٹ کر رہی ہے اور استوائی گنی کے بیوکو جزیرے میں بڑے پیمانے پرتحقیق کی منصوبہ بندی بھی کر رہی ہے۔

امریکی نیشنل انسٹی ٹیوٹس آف ہیلتھ بھی یہ جاننے کے لیے جلد ابتدائی ٹیسٹ شروع کر رہا ہے کہ آیا وقفے وقفے سے لوگوں کو لیبارٹری میں تیار کردہ اینٹی باڈیز لگانا قوت مدافعت پر انحصار کرنے سے بہتر ہے۔ اس سے ملیریا سیزن میں کچھ تحفظ تو ملے گا۔

فی الحال صرف ملاوی، گھانا اور کینیا کے کچھ علاقوں میں شیرخوار بچے ہی موسکیرکس ویکسین کے لیے اہل ہیں۔ 2015 میں عالمی ادارہ برائے صحت نے ویکسین کی منظوری دینے پر کہا تھا کہ افریقہ بھر میں اس کے استعمال کے لیے منظوری دینے سے پہلے وہ اس کا پائلٹ پروگرام دیکھنا چاہتا ہے تاکہ پتہ لگایا جا سکے کہ یہ کچھ ملکوں میں کتنی موثر ثابت ہوتی ہے۔

ملاوی کے ویکسنیشن پروگرام کی سربراہ تیموا مزینگزا نے کہا: ’ہر کوئی اسے لگاونے کا منتظر ہے۔‘

مزینگزا کو سال میں کئی بار ملیریا ہوتا تھا جب تک انھوں نے دوسروں کو دی جانے والی اپنی ہی تجویز پر عمل نہیں کیا اور نیٹ کے نیچے سونا نہیں شروع کیا۔ دوسرے انفیکشنز کے برعکس ملیریا بار بار ہو سکتا ہے اور اس کے خلاف صرف جزوی مدافعت ہی پیدا ہوتی ہے۔

گذشہ سال شروع ہونے والے پائلٹ پروگرام میں تین ممالک میں ہر سال تین لاکھ 60 ہزار بچوں کو ویکسین لگنی ہے۔ پہلی خوراک پانچ ماہ پر اور چوتھا اور آخری بوسٹر دوسری سال گرہ کے قریب۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جاننا قبل از وقت ہے کہ ویکسین کتنی موثر ہے۔ وہ ملیریا سے اموات، شدید انفیکشن اور میننجائٹس کے کیسز پر نظر رکھے ہوئے ہیں جو تحقیق میں رپورٹ ہوئے ہیں لیکن حتمی طور پر ان کیسز کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اس ویکسین سے جڑے ہیں یا نہیں۔

ملاوی میں پروگرام کا جائزہ لینے والے محقق ڈون متھنگا کا کہنا تھا: ’ملیریا کے لیے کچھ نیا کرنا بہت دلچسپ ہے۔‘

بارش کے موسم نے  ٹیموں کے لیے مشکلات اور بڑھا دی ہیں، کچھ دیہی سڑکیں پہنچ سے باہر ہیں جس سے وہاں کے بچوں تک پہنچنا مشکل ہوگیا ہے جن کی ویکسین کی خوراک کا وقت ہو گیا ہے۔

اب تک ملاوی میں پہلی خوراک ٹارگٹ سے نصف بچوں تک ہی پہنچ سکی ہے یعنی 35 ہزار۔ دوسری خوراک کے لیے یہ تعداد گر کر 26 ہزار ہو گئی ہے اور تیسری کے لیے 20 ہزار۔  

مزینگزا نے کہا: ’ایک نئی ویکسین کے لیے یہ حیرت کی بات نہیں۔ وقت کے ساتھ صحیح ہو جائے گا۔‘

مگووی کے کلینک میں اہلکاروں کو امید کی کرن نظر آ رہی ہے۔ ہینری کدزووا کلینک میں آئی ماؤں کو ویکسین کے بارے میں بتا رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ پروگرام کے پہلے پانچ مہینوں میں ملیریا کے کیسز 40 تھے۔ اس کے برعکس 2018 میں اس عرصے کے دوران یہ تعداد 78 تھی۔

مگووی میں ملیریا کے کیسز کی شرح ملک میں سب سے زیادہ ہے۔

کلینک پر موجود ایگنس نگوبلے نے بتایا کہ انھیں کئی سال پہلے ملیریا ہوا اور وہ اب اپنی چھ ماہ کی بیٹی لیڈیا کو اس سے محفوظ رکھنا چاہتی ہیں۔

انھوں نے کہا: ’میں چاہتی ہوں کہ وہ صحت مند اور آزاد ہو۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ ڈاکٹر بنے۔‘ ان کو لیڈیا کی اگلی خوراک کی تاریخ بھی یاد ہے: اگلے ماہ، یہی تاریخ۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی افریقہ