جتنی انتقامی کارروائی کرلیں،میری آواز نہیں دبائی جاسکتی: گرفتار صحافی

جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف پر تنقید اور قومی ترانے میں ردوبدل کے الزام میں گرفتار صحافی اظہار الحق کو تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کردیا گیا۔

پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی  اے) کے سائبر کرائم ونگ کی جانب سے گرفتار کیے گئے صحافی اظہار الحق کو  تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کردیا گیا، تاہم نوجوان صحافی کا کہنا ہے کہ وہ آزادی اظہار رائے کا حق استعمال کرتے رہیں گے۔

ایف آئی اے نے اظہار الحق کو گذشتہ روز یعنی جمعرات کی شام طلب کیا تھا اور دفتر میں پیش ہونے پر انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایف آئی اے کی جانب سے اظہارالحق کے خلاف درج کیے گئے مقدمے میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے حکومت اور سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف پر سوشل میڈیا کے ذریعے نہ صرف تنقید کی بلکہ اپنے فیس بک اکاؤنٹ سے ایسی ویڈیوز اور تصاویر بھی وائرل کیں جن میں قومی ترانے میں قابل اعتراض ردوبدل کیا گیا جب کہ اداروں کے خلاف نفرت انگیز مواد بھی پھیلایا گیا۔

مقدمے کے مطابق ملزم نے سوشل میڈیا مہم کے ذریعے پاکستانی شہریوں کی دل آزاری کرکے اداروں کو بے توقیر کرنے کی کوشش کی۔

ایف آئی آر کے مطابق صحافی اظہار الحق نے تسلیم کیا کہ انہوں نے ریکارڈ کے مطابق اپنے اکاؤنٹ سے قابل اعتراض پوسٹس شیئر کی ہیں۔

عدالتی کارروائی

ایف آئی اے کی ٹیم نے صحافی اظہار الحق کو آج بروز جمعہ جوڈیشل مجسٹریٹ یاسر عرفات کے سامنے پیش کرکے مزید تفتیش کے لیے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی، جس پر عدالت نے ملزم کو تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کردیا۔

ملزم کے وکیل میاں داؤد نے عدالت سے استدعا کی کہ ایف آئی اے کی جانب سے ان کے موکل کا موبائل قبضے میں لے لیا گیا ہے، لہذا اب انہیں جسمانی ریمانڈ کی بجائے جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجا جائے۔

وکیل میاں داؤد نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے نے جوالزامات عائد کیے ہیں وہ آئین کے آرٹیکل 19 سے متصادم ہیں، جس میں ہر شہری کو آزادی اظہار رائے کا حق دیا گیا ہے۔

انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ ایف آئی اے نے ریاست مخالف مواد کا ایک بھی جزو ایف آئی آر کا حصہ نہیں بنایا۔

صحافی اظہار الحق کا موقف

ایف آئی اے کی جانب سے گرفتار کیے گئے صحافی اظہار الحق نے عدالت میں پیشی کے موقع پر دیگر صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ انہوں نے حکومت اور مشرف غداری کیس کے فیصلے پر اپنی رائے کا اظہار کیا جب کہ قومی ترانے میں تبدیلی بھی اداروں کی غیر آئینی مداخلت سے متعلق تھی، انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا۔ وہ محب وطن پاکستانی ہیں اور آئین پاکستان کو دل سے تسلیم کرتے ہیں۔

اظہار الحق نے بتایا کہ ایف آئی اے اہلکاروں نے انہیں کوئی نوٹس جاری نہیں کیا۔ بدھ (15 جنوری) کو شاہدرہ میں واقع ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا گیا، وہ گھر پر موجود نہیں تھے لیکن ان کے گھر والوں سے بدتمیزی کی گئی اور دھمکیاں دی گئیں۔

ان کا موقف تھا کہ اگر انہوں نے کوئی جرم کیا ہوتا تو وہ خود ایف آئی اے آفس میں پیش نہ ہوتے۔

اظہار الحق نے مزید بتایا کہ وہ چند روز پہلے روزنامہ ’خبریں‘ لاہور میں بطور رپورٹر کام کر رہے تھے، تنخواہ نہ ملنے پر انہوں نے کسی اور اخبار میں انٹرویو دیا تھا کہ یہ واقعہ پیش آگیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’جتنا مرضی انتقامی کارروائی کرلیں، میں آزادی اظہار رائے کا حق استعمال کرتا ہوں گا۔ میری آواز نہیں دبائی جاسکتی۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان