کیا واقعی پاکستان میں پلاسٹک کے انڈے فروخت ہو رہے ہیں؟

ملک کے ہر شہر میں آپ نے لوگوں سے سنا ہوگا کہ مارکیٹ میں چین سے آنے والے جعلی انڈے فروخت کیے جا رہے ہیں، لیکن حقیقت کیا ہے؟

خیبر پختونخوا فوڈ سیفٹی اینڈ حلال فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر ٹیکنیکل ڈاکٹر عبدالستار کا کہنا ہے کہ مصنوعی اور اصلی انڈے کی پہچان آسانی سے ہو سکتی ہے ۔(فائل تصویر: اے ایف پی)

چند ماہ قبل میڈیا پر خبریں چلیں کہ کراچی میں پولیس چھاپے کے دوران پلاسٹک کے انڈوں کی ایک گاڑی پکڑی گئی ہے جو مارکیٹوں میں یہ انڈے سپلائی کرتے تھے۔

اسی طرح پاکستان کے ہر شہر میں آپ نے لوگوں سے سنا ہوگا کہ مارکیٹ میں چین سے آنے والے جعلی انڈے فروخت کیے جا رہے ہیں۔

اس بات سے پہلے کہ کیا واقعی پاکستان میں مصنوعی یا پلاسٹک کے انڈے فروخت کیے جارہے ہیں، یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ انڈے بنتے کیسے ہیں اور اصلی اور مصنوعی انڈوں کی پہچان کیسے کی جاسکتی ہے؟

پلاسٹک یا مصنوعی انڈے کیسے بنائے جاتے ہیں؟

مصنوعی انڈوں کے حوالے سے سڈنی یونیورسٹی نے ایک تحقیقی مقالہ لکھا ہے، جس کے مطابق 21 ویں صدی میں انسانوں میں اتنی صلاحیت آگئی ہے کہ اب انہوں نے قدرتی اشیا کی مصنوعی  شکلیں بنانی شروع کر دی ہیں جس میں مصنوعی انڈے بھی شامل ہیں۔

مقالے کے مطابق یہ انڈے شکل میں بالکل اصلی انڈوں کی طرح لگتے ہیں لیکن یہ مصنوعی طریقے سے فیکٹری میں مخلتف کیمیکل کو ملا کر بنائے جاتے ہیں اور پھر مارکیٹوں میں بھیجے جاتے ہیں، جن کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ چین میں بنائے جاتے ہیں۔

اس تحقیقی مقالے کے مطابق مصنوعی انڈوں کو بنانے کے لیے درکار مواد مارکیٹ میں سستے داموں دستیاب ہوتا ہے۔ مصنوعی انڈوں کے چھلکوں کو بنانے کے لیے کیلشیئم کاربونیٹ، میگنیشیم کاربونیٹ، ٹرائی کیلشیئم فاسفیٹ، پروٹین، اولبومین اور لائسوزیم جیسے کیمیکل استعمال ہوتے ہیں۔

اسی طرح سفیدی بنانے کے لیے گلوبولین، اوگلائیکو پروٹین، سیسٹین اور اسی طرح دیگر کیمیکلز استعمال کیے جاتے ہیں جب کہ انڈے کی زردی بنانے کے لیے سیرم البومین، لائیو ٹین اور دیگر مخلتف کیمیلز استعمال ہوتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان انڈوں کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے بینزوئک ایسڈ استعمال ہوتا ہے جب کہ رنگت کے لیے خوراک کے مختلف رنگ استعمال کیے جاتے ہیں اور اس کو نرم کرنے کے لیے الم استعمال کیا جاتا ہے۔

اس مقالے کے مطابق پہلے سوڈیم الگینیٹ کا محلول بنایا جاتا ہے جس سے ایک شفاف سا لیکوئڈ بن جاتا ہے، اس کے بعد اس میں سے تھوڑی سی سفیدی کو الگ کیا جاتا ہے اور اس میں لیموں والا رنگ ڈالا جاتا ہے تاکہ زردی کو علیحدہ کیا جاسکے اور پھر سفیدی اور زردی کو ملا دیا جاتا ہے۔ بعد میں انہیں انڈے کی طرز کے خانوں میں رکھا جاتا ہے۔

کیا پاکستان میں مصنوعی انڈے بنائے جاتے ہیں؟

اس حوالے سے کراچی یونیورسٹی کے فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سید محمد غفران سعید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان میں ابھی تک ایسا کوئی کیس نہیں پکڑا گیا، جہاں پر مصنوعی طریقے سے انڈے تیار کیے جاتے ہوں کیونکہ پاکستان میں انڈے ویسے بھی بہت کم قیمت پر دستیاب ہیں جب کہ اگر مصنوعی طریقے سے تیار کیے جاہیں تو ان کی قیمت بڑھ سکتی ہے اور ایک انڈہ 15 سے 20 روپے کا ملے گا۔

ڈاکٹر سید محمد غفران سعید کے مطابق: ’ایسا ضرور ہوتا ہے کہ گرمیوں میں انڈوں کو کولڈ سٹوریج میں رکھ دیا جاتا ہے اور تھوڑے عرصے بعد جب اسے نکالا جاتا ہے تو اس میں ڈی نیچوریشن کی وجہ سے مسئلہ آجاتا ہے اور پھر لوگ کہتے ہیں کہ یہ جعلی انڈہ ہے۔‘

مصنوعی انڈے انسانی صحت کے لیے کتنے مضر ہیں؟

ایک تحقیقی مقالے میں لکھا گیا ہے کہ ایک بڑے سائز کے انڈے میں چھ گرام پروٹین ہوتی ہے جس میں سے آدھی پروٹین انڈے کی سفیدی میں ہوتی ہے۔ اس میں آئرن، فولیٹ، وٹامن بی، ڈی ہوتا ہے جو انسانی صحت کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے۔

انڈے کی زردی میں آئرن زیادہ ہوتا ہے جو ان افراد کے لیے مفید ہوتا ہے جن میں آئرن کی کمی ہو۔  تاہم مصنوعی انڈے چونکہ کیمیکز سے بنے ہوتے ہیں اس لیے وہ انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔

تحقییقی مقالے کے مطابق مصنوعی انڈے جگر اور خون کی کمی جیسی بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں جب کہ ان کے کھانے سے معدہ  بھی خراب ہو سکتا ہے۔

اسی طرح ان انڈوں میں استعمال ہونے والا سوڈیم الگینیٹ خون کی رفتار کو تیز کرتا ہے، جس سے شریان میں خون کا دباؤ بڑھ سکتا ہے جب کہ یہ ہڈیوں کو کمزور اور گردے کو خراب بھی کر سکتا ہے۔

اس حوالے سے خیبر پختونخوا فوڈ سیفٹی اینڈ حلال فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر ٹیکنیکل ڈاکٹر عبدالستار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جو بھی چیز کسی کیمیکل سے بنائی جاتی ہے، اس کا انسانی صحت پر برا اثر ضرور پڑتا ہے کیونکہ انسانی جسم قدرتی طور پر بنی خوراک کو ہضم کرنے کی صلاحیت تو رکھتا ہے لیکن کیمیکلز کے مضر اثرات کی وجہ سے صحت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

جعلی اور اصلی انڈے کی پہچان کیسے کریں؟

ڈکٹر عبدالستار نے بتایا کہ مصنوعی اور اصلی انڈے کی پہچان آسانی سے ہو سکتی ہے۔

ان کے مطابق: ’اصلی انڈے کے خول کے بعد ایک دوسری پتلی سی تہہ ہوتی ہے جب کہ مصنوعی انڈے میں یہ نہیں ہوتی۔ اسی طرح اگر اصلی انڈے کو آپ کھلا رکھ دیں تو مکھیاں اس کے اوپر جمع ہو جائیں گی جب کہ مصنوعی انڈہ چونکہ کیمیکل سے بنا ہوتا ہے، اس لیے مکھیاں اس پر نہیں بیٹھتیں۔‘

ڈاکٹر غفران کہتے ہیں کہ ’اصلی انڈے کی زردی کے اوپر ایک باریک سفید سپاٹ (Spot) نظر آتا ہے جو اندر کی طرف جاتا ہے اور یہی سپاٹ منی سے مل کر اس سے چوزہ بنتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اصلی انڈے کو اگر آپ روشنی میں دیکھیں تو اس کے اوپر آپ کو چھوٹے سے سوراخ نظر آئیں گے، جو آپ کو مصنوعی انڈے میں نظر نہیں آئیں گے۔‘

دوسری جانب اس سوال پر کہ لوگ کیوں کہتے ہیں کہ انڈے کے ذائقے میں مسئلہ ہے اس لیے یہ جعلی ہے؟ عبدالستار نے بتایا کہ ’انڈوں کے استعمال کی میعاد کم ہوتی ہے اور بعض اوقات جب درجہ حرارت 30 ڈگری سنٹی گریڈ سے اوپر چلا جائے تو انڈہ خراب ہو جاتا ہے اور اس کے ذائقے میں مسئلہ آجاتا ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی صحت