’جس گھر کو محفوظ سمجھ کر 40 لوگوں نے پناہ لی وہی گلیشیئر تلے آ گیا‘

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع نیلم ویلی میں واقع وادی سرگن میں برفانی تودوں سے ہلاکتوں کی تعداد 41 ہو گئی ہے۔ متاثرین اور عینی شاہدین کی روداد

حالیہ برف باری میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا علاقہ سرگن ویلی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے شمال مشرقی ضلع نیلم ویلی کی تحصیل شاردہ میں واقع ہے اور یہاں پہنچے کے لیے دارالحکومت مظفرآباد سے 136 کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے میں عام حالات میں سات سے آٹھ گھنٹے لگتے ہیں، تاہم برف باری کے بعد وادی نیلم کی مرکزی شاہراہ کے علاوہ رابطہ سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ اب ناقابل رسائی ہے۔

برف باری کے بعد اگرچہ سوموار ہی سے برفانی تودے گرنے سے اس علاقے میں ہونے والی تباہی کی اطلاعات آنا شروع ہو گئی تھیں، تاہم ٹیلی کمیونیکیشن کا نظام معطل ہونے کی وجہ سے ان اطلاعات کی تصدیق ممکن نہ تھی اور سرکاری ادارے ان اطلاعات کی مسلسل تردید کر رہے تھے۔

سرگن ویلی شاردہ قصبے کے جنوب مغرب میں ایک تنگ وادی ہے جس کی لمبائی لگ بھگ 20 کلومیٹر ہے اور اس کا بیشتر علاقہ گھموٹ نیشنل پارک میں شامل ہے۔ سرگن وادی کو ایک نالہ دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ زیادہ تر آبادیاں نالے کی مشرقی سمت میں ہیں تاہم میتاں والی سیری، سام گام اور گھموٹ نامی گاؤں کے علاوہ چند اور چھوٹی آبادیاں نالے کی مغربی سمت میں بھی آباد ہیں۔

اس علاقے کو جانے والی رابطہ سڑک کا نصف سے بھی کم حصہ پختہ ہے اور سردیوں کے موسم میں یہ سڑک عموماً بند رہتی ہے۔ اس علاقے کے لگ بھگ دس ہزار مکینوں میں سے اگر کوئی بیمار یا زخمی ہو جائے تو انہیں اٹھا کر کئی کلو میٹر پیدل چلنا پڑتا ہے۔

’گلیشیئر پر پیدل چلنا خود کو موت کے منہ میں ڈالنے جیسا ہے‘

منگل کے روز شاردہ سے پیدل چل کر اس علاقے میں پہنچنے والوں میں محکمہ جنگلات کے ایک آفیسر سردار اکرم بھی تھے، جنہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’سرگن گاؤں تک پہنچنے کے لیے 12 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے میں انہیں کم از کم چار گھنٹے لگے اور اس دوران انہیں چھ سے آٹھ فٹ برف کے علاوہ کئی ایسے مقامات سے بھی گزرنا پڑا جہاں برفانی تودہ گرنے کے بعد سڑک یا راستے کے آثار بالکل ختم ہو گئے تھے اور گلیشیئر کے اوپر چلنا تنی ہوئی رسی پر چلنے کے برابر تھا۔ ذرا سی غلطی بھی جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔‘

(تصویر: جلال الدین مغل)


سردار اکرام کہتے ہیں کہ ان حالات میں بھی شاردہ اور ارد گرد کے علاقوں سے سینکڑوں لوگ جن میں ایک قابل ذکر تعداد خواتین کی بھی ہے، اپنے رشتہ داروں تک پہنچنے کے لیے اس پُر خطر راستے پر سفر کر رہے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بکوالی گاؤں کے رہائشی 40 سالہ مطیع الرحمٰن کا گھر برفانی تودے تلے دب گیا اور ان کے خاندان کے کم از کم پانچ افراد ہلاک اور چار زخمی ہوئے، تاہم ان کی ایک کم سن بیٹی اور وہ خود معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔ مطیع الرحمٰن کو کئی گھنٹوں تک برف تلے رہنے کے بعد نکالا گیا اور اگلے روز پاکستانی فوج کے ہیلی کاپٹر نے انہیں کیل اور بعد ازاں شاردہ کے ایک ہسپتال میں منتقل کیا۔

بکوالی گاؤں کے جس گھر میں مطیع الرحمٰن اور ان کا خاندان تھا وہاں ان کے بقول کم از کم 40 افراد تھے جن میں سے 20 لوگ ہلاک ہوگئے۔ مطیع الرحمٰن سمیت 18 لوگوں کو زخمی حالت میں نکالا گیا جب کہ دو بچے معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔

شاردہ کے سرکاری ہسپتال میں گھر واپسی کے منتظر مطیع الرحمٰن کو نہیں معلوم کہ ان کے خاندان کے مرنے والے افراد کی تدفین کس نے کی۔ انڈیپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے مطیع الرحمٰن نے بتایا کہ ان کے گھر کے دس میں سے پانچ افراد ہلاک ہوئے جب کہ چار زخمی ہیں۔ ایک بھائی کراچی میں کام کرتا تھا وہ آج واپس پہنچا ہے۔

مطیع الرحمٰن کے بقول: ’جب برف باری بہت زیادہ ہو گئی تو ہم سب محلے والے ایک گھر میں جمع ہو گئے تھے جو نسبتاً محفوظ تھا مگر اس بار برفانی تودے نے اسی گھر کو نشانہ بنایا۔‘

’پانچ نوجوانوں نے 18 لاشیں اور 16 زخمی نکالے‘

بکوالی گاؤں کے صرف پانچ افراد ایسے تھے جو برفانی تودے تلے آنے سے بچ گئے تھے۔ ان میں سے ایک گاؤں کی مسجد کے 30 سالہ امام مولوی عبدالرحمٰن بھی ہیں۔ انہوں نے ٹیلی فون پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ چار دیگر نوجوانوں کے ہمراہ قریبی گاؤں میں اپنے رشتہ داروں کی خبر لینے گئے تھے، جب گلیشیئر کھسکنے کی آواز آئی تو وہ واپس گھر کی طرف بھاگے۔ ’ہوا بہت تیز تھی۔ برف اڑ رہی تھی اور ہر طرف اندھیرا سا چھا گیا تھا۔ ہمیں اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ بہت بڑی تباہی ہے مگر ہم تو سوچ رہے تھے کہ گاؤں کے باقی لوگ محفوظ جگہ پر ہیں۔‘

(تصویر: جلال الدین مغل)


مولوی عبد الرحمٰن نے بتایا: ’برف کے نیچے سے آوازیں آ رہی تھیں۔ لوگ مدد کے لیے پکار رہے تھے۔ ان میں بچے بھی تھے اور خواتین بھی۔ ہم بے بس تھے۔ ہمارے پاس دو ہی راستے تھے۔ یا تو بیٹھ کر اپنے اور ان کے مرنے کا انتظار کریں یا پھر ان کو بچانے کی کوشش کریں۔ جو گھر محفوظ تھے وہاں سے ہم کدال اور بیلچے نکال لائے اور برف ہٹانے لگے۔ ہم کسی کو مدد کے لیے بھی نہیں بلا سکتے تھے۔ کئی گھنٹوں بعد ہم نے برف ہٹا کر گھر کے ملبے تک پہنچنے کا راستہ بنا لیا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ لاشوں کو کہاں رکھیں اور زخمیوں کو ہسپتال کیسے لے جائیں۔‘

عبدالرحمٰن کے مطابق: ’جن زخمیوں کو نکالا گیا ان کے جسم سن ہو چکے تھے۔ وہ حرکت بھی نہیں کر سکتے تھے۔ آگ جلا کر ان کو گرم کیا تو ان میں سے کچھ ہمارے ساتھ کام کرنے لگ گئے۔‘

رات بھر اندھیرے میں برف اور ملبہ ہٹا کر عبدالرحمٰن اور ان کے ساتھیوں نے 18 لاشیں اور 18 زخمیوں کو نکالا تاہم عبدالرحمٰن کی ایک بہن کی لاش کی تلاش اگلے دو دن تک جاری رہی۔

عبدالرحمٰن کے بقول امدادی ٹیمیں جب تک پہنچیں، وہ اپنی بہن کے علاوہ سبھی لاشیں اور زخمی ملبے سے نکال چکے تھے اور مرنے والوں کی تدفین کی تیاری کر رہے تھے۔

’بہو کو ہسپتال لے جاؤں تو لاشیں کون دفن کرے گا‘

سیری بالا نامی گاؤں میں جن دوخاندانوں میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ان میں گلاب شیخ نامی شخص کے خاندان کے 11 اور شیخ عبدالرحمٰن کے خاندان کے آٹھ افراد ہلاک ہوئے۔ گلاب شیخ کے بیٹوں سمیت وہی افراد زندہ بچے جو گاؤں سے باہر تھے جب کہ شیخ عبدالرحمٰن ، ان کے ایک بیٹے اور بہو کو ہی زندہ بچایا جا سکا۔

شیخ عبدالرحمٰن کی 23 سالہ بہو کو زخمی حالت میں ملبے تلے سے نکالا گیا مگر وہ اسے ہسپتال نہیں لے جا سکے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے شیخ عبدالرحمٰن نے بتایا کہ ان کے دو بیٹے کراچی میں کام کرتے ہیں۔ ’پوری برادری میں ہم تین لوگ زندہ بچے ہیں، باقی گاؤں سے باہر ہیں۔ اگر میں یا میرا بیٹا زخمی بہو کو لے کر ہسپتال جائیں تو 18 میتیں کون دفن کرے گا؟ اور اگر ہم اسے اکیلا بھیج دیں تو اس کی دیکھ بھال کون کرے گا؟‘

’لاشوں کی تدفین کے لیے تین دن کا انتظار‘

شیخ عبدالرحمٰن اور گلاب شیخ کے بیٹے کراچی میں مزدوری کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ برفانی تودہ گرنے کی اطلاع ملتے ہی وہاں سے چل پڑے تھے تاہم انہیں راستے میں علم ہوا کہ ان کا خاندان حادثے کا شکار ہو گیا ہے۔

حادثے کے دوسرے روز ان کے خاندانوں کی تمام لاشیں اور زخمی نکال لیے گئے تھے تاہم اگلے تین دن تک ورثا کے پہنچنے کے انتظار میں لاشیں دفن نہیں کی گئیں۔ دونوں خاندانوں کے پانچ مرد 24 گھنٹے پیدل چلنے کے بعد سیری گاؤں پہنچے اور اپنے پیاروں کو قبر میں اتارا۔

(تصویر: جلال الدین مغل)


گلاب شیخ کی چھ سالہ پوتی صفیہ کو 18 گھنٹے ملبے تلے دبے رہنے کے بعد زخمی حالت میں نکال کر مظفرآباد کے ہسپتال میں منتقل کیا گیا تھا تاہم کچھ گھنٹے ہسپتال میں رہنے کے بعد وہ بھی چل بسی۔

’اجتماعی قبریں، اجتماعی نماز جنازہ‘

سیری بالا میں لاشوں کی تدفین کے عمل میں شامل ایک نوجوان آصف اقبال کا کہنا ہے کہ 18 لاشوں کی تدفین کے لیے ایک ہی گڑھا کھودا گیا اور پھر لکڑی کی دیواروں سے انہیں الگ الگ قبروں کی شکل دی گئی۔ جب کہ کئی فٹ برف ہٹا کر زمین خالی کی گئی اور پھر قبریں بنائی گئیں۔

آصف کے بقول: ’عام طور پر یہاں قبروں کے اندر پتھر کی دیوار بنائی جاتی ہے اور ڈھانپنے کے لیے بھی پتھر کی چوڑی مضبوط سلیں استعمال ہوتی ہیں، مگر برف میں پتھر کی دیواریں بنانا یا قبریں ڈھانپنے کے لیے سلیں لے کر آنا ممکن نہیں تھا، اس لیے صرف لکڑی کے باکس بنا کر انہیں گڑھے کے اندر اتارا گیا۔‘

سیری بالا اور بکوالی دونوں گاؤں میں مرنے والوں کی اجتماعی نماز جنازہ ادا کی گئیں۔

’جانوروں کی لاشیں ایسے ہی پڑی ہیں‘

اس علاقے کے لوگوں کا معاشی دارومدار کھیتی باڑی اور مال مویشیوں پر ہے۔ برفانی تودوں کی زد میں آ کر تباہ ہونے والے درجنوں گھروں میں سے ہر ایک میں چار سے چھ مویشی اور بعض گھروں میں کئی کئی درجن بھیڑ بکریاں تھیں۔

سردار اکرام کے بقول جن گھروں میں انسان ملبے تلے آ گئے تھے وہاں کھدائی کے دوران کئی جانوروں کی لاشیں نکلی ہیں جب کہ درجنوں گھر ایسے ہیں جہاں صرف مویشی تھی اور ان کو نکالنے کے لیے کسی نے کھدائی نہیں کی۔ ’برف تلے سے نکلے والی انسانی لاشیں تو دفنا دی گئی ہیں جب کہ جانوروں کی لاشیں ملبے کے ساتھ ایسے ہی پڑی ہیں۔‘

اگرچہ شدید سردی کی وجہ سے فوری طور پر جانوروں کی لاشیں گلنے سڑںے کا امکان نہیں تاہم برف باری ختم ہونے پر ان لاشوں کو ٹھکانے نہ لگایا گیا تو بدبو سے سانس لینا محال ہو گا اور کئی طرح کی بیماریاں بھی پھیل سکتی ہیں۔

’امدادی سامان سے زیادہ ادویات کی ضروت‘

پچھلے کئی دنوں سے سرگن کے علاقے میں موجود تحصیل دار شاردہ سید یاسر بخاری کے بقول پاکستانی فوج کے ہیلی کاپٹروں نے فوری ضرورت کے لیے کھانے پینے کا کافی سامان اس علاقے تک پہنچایا ہے تاہم گرم کپڑوں اور ادویات کی اب بھی ضرورت ہے۔ ’پہلے دو تین دن تو لوگ لاشوں کو نکالنے، دفن کرنے اور زخمیوں کو ہسپتالوں میں لے جانے میں مصروف تھے اس لیے امدادی سامان تقسیم نہیں کیا گیا اب ضرورت کے مطابق کھانے پینے کی اشیا اور باقی سامان تقسیم کرنے کا عمل شروع ہو گا۔‘

اس علاقے سے واپس آنے والے ایک رضاکار مشتاق بٹ نے یہاں علاج معالجے کی سہولیات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ اگر فوری طور پر یہاں ادویات اور طبی عملہ نہ پہنچایا گیا تو بے گھر ہونے والی خواتین اور بچے شدید سردی میں  بیمار پڑ سکتے ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا