’فری پیریڈز‘ مہم کے بعد بچیاں سکول میں کوئی سبق مس نہیں کرتیں

20 سالہ امیکا جارج نے 2017 میں ’فری پیریڈز‘ کے عنوان سے مہم شروع کی، جس کا مقصد یہ تھا کہ سکولوں میں ماہواری کی مصنوعات مفت فراہم کی جائیں۔

ماہواری کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے وسائل کی کمی برطانیہ میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ 49 فیصد لڑکیاں ماہواری کی وجہ سے ایک دن سکول نہیں جا سکتیں اور 14 سے 21 برس کی 10 خواتین میں سے ایک کے پاس ماہواری کی مصنوعات خریدنے کے لیے رقم نہیں ہے۔(تصویر: مولی روز)

امیکا جارج کو جب پتہ چلا کہ لڑکیاں ماہواری کے مسائل سے نمٹنے کے لیے اخبار، ٹوائلٹ رول اور جرابیں استعمال کر رہی ہیں اور ہر مہینے سکول سے چھٹیاں کرتی ہیں تو انہوں نے اس مہم کا آغاز کیا کہ حکومت انہیں ماہواری کی مصنوعات مفت فراہم کرے۔

20 سالہ امیکا جارج نے 2017 میں ’فری پیریڈز‘ کے عنوان سے مہم شروع کی تھی۔ ابتدا میں ان کے علم میں آیا کہ حکومت نے ماہواری کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے استعمال ہونے والی مصنوعات کی تمام سکولوں اور دو سال کی ثانوی تعلیم کے کالجوں میں مفت فراہمی کی ان کی کوششیں نظر انداز کر دی ہیں۔

جارج نے جب مہم شروع کی تو ان کی عمر17 برس تھی۔ انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’مجھے یہ سن کر واقعی بہت برا لگا کہ برطانیہ میں ایسی لڑکیاں موجود ہیں، جو ہر ماہ ایک ہفتے سکول نہیں جا پاتیں۔ مجھے بہت برا لگا اور واقعی غصہ آیا کہ اس حقیقت کے باوجود کہ مسئلہ اجاگر کیا جا رہا تھا، حکومت نے جواب نہیں دیا۔‘

امیکا جارج نے ایک قانونی فرم کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا تاکہ ’ایک جاندار قانونی مقدمہ‘ تیار کیا جا سکے۔ اس کیس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ برابری کے قانون کے تحت حکومت کی قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ ماہواری کی مصنوعات فراہم کرے۔

ماہواری کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے وسائل کی کمی برطانیہ میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ 49 فیصد لڑکیاں ماہواری کی وجہ سے ایک دن سکول نہیں جا سکتیں اور 14 سے 21 برس کی دس خواتین میں سے ایک کے پاس ماہواری کی مصنوعات خریدنے کے لیے رقم نہیں ہے۔

گذشتہ برس موسم بہار میں حکومت نے اعلان کیا تھا کہ برطانیہ اور ویلز میں پرائمری اور سیکنڈری سکولوں میں 2020 کے آغاز سے ذاتی صفائی کی مصنوعات مفت فراہم کی جائیں گی۔

حکومت اس اعلان سے پیچھے ہٹ گئی اور ماہواری کی مصنوعات تقسیم کرنے کے لیے ابتدائی طور پر ثانوی سکولوں کا انتخاب کیا۔ مہم چلانے والوں کی جانب سے اس اقدام پر شدید تنقید کے بعد حکومت نے عمر کے اعتبار سے ایک وسیع دائرے کے لیے منصوبہ متعارف کروا دیا جس میں ثانوی تعلیم کے کالجوں کو بھی شامل کیا گیا۔

امیکا جارج نے حکومتی سکیم کو سراہا لیکن ساتھ ہی تشویش ظاہر کی کہ شاید سکول ماہواری کی مصنوعات فراہم کرنے کے منصوبے کو قبول نہ کریں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا: ’مجھے واقعی خوشی ہے کہ اگلے ہفتے سے ماہواری کی مصنوعات مفت دستیاب ہوں گی۔‘ 

امیکا کے مطابق: ’حقیقت میں اہم بات یہ ہے کہ سکولوں نے حکومت کو اس معاملے میں شامل کیا ہے۔ ہم زور دے رہے ہیں کہ تمام سکولوں کو اس میں شامل کیا جائے۔ ماہواری کی مصنوعات تک رسائی کو اسی طرح بنیادی ضروریات کی کیٹگری میں شامل کیا جائے جس طرح ٹوائلٹ پیپر اور صابن شامل ہیں اور ٹمپون اور پیڈ سامان تعیش میں شامل نہیں ہونے چاہییں۔‘

برطانیہ میں ماہواری کی مصنوعات ’پرتعیش، غیر ضروری سامان‘ کی فہرست میں شامل کی گئی ہیں اور ان پر پانچ فیصد ٹیکس عائد ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اوسط دورانیے کی زندگی میں ان کی خریداری پر چار ہزار آٹھ سو پاؤنڈ کا خرچہ آتا ہے۔

جارج نے کہا کہ بہت سی دوستوں اور اجنبی لڑکیوں نے ان سے رابطہ کیا ہے تاکہ انہیں ماہواری کی مصنوعات کی خریداری کے معاملے میں مالی وسائل کی قلت کے اپنے تجربے سے آگاہ کر سکیں۔

انہوں نے مزید کہا: ’کچھ کہتیں کہ ماہواری کی مصنوعات خریدنے کی سکت نہ رکھنے کی وجہ سے وہ حقیقت میں کورس کے معاملے میں پیچھے رہ گئیں اور اپنے مقرر کردہ نصاب کا بڑا حصہ نہ پڑھ سکیں۔ ایک لڑکی نے اضافی ریزگاری کی تلاش میں گھر کا کونا کھدرا چھان مارا۔ اکثر لڑکیاں بدنامی اور شرم کی وجہ سے والدین کو رقم کے لیے کہنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہیں۔ وہ نہیں چاہتیں کہ ان کے والدین اس کیفیت میں مبتلا ہوں کہ انہیں کہنا پڑے: ’تمہاری ماہواری کو سامنے رکھتے ہوئے خوراک یا ماہواری کے سامان میں سے کوئی ایک چیز ترجیح ہو سکتی ہے اور ہمیں خوراک کو ترجیح دینا پڑے گی۔‘

امیکا جارج کے مطابق: ’اساتذہ نے بتایا کہ انہوں نے دیکھا کہ ہر مہینے مخصوص لڑکیاں ہی سکول سے غیرحاضر رہتی ہیں جس کے بعد انہیں اپنی رقم طالبات کے لیے ماہواری کی مصنوعات کی خریداری پر خرچ کرنی پڑی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ان لڑکیوں کی بات سنی جنہوں نے بتایا کہ ماہواری کی موزوں مصنوعات کو خریدنے کی سکت نہ رکھنے کی وجہ سے انہیں کپڑے کے ٹکڑے اور ٹی شرٹس کی آستینیں استعمال کرنی پڑیں۔ ایسی خواتین اور لڑکیاں جو ماہواری کی مصنوعات نہیں خرید سکتیں انہیں بیکٹیریا کے سبب مہلک انفیکشن میں مبتلا ہونے کا خطرہ رہتا ہے جسے ٹاکسک شاک سینڈروم کہا جاتا ہے۔

ان کا مؤقف تھا کہ ماہواری مصنوعات خریدنے کی سکت نہ ہونے کے مسئلے پر توجہ نہ دیے جانے کی ایک اہم وجہ وہ بدنامی یا بندش ہے، جس نے ماہواری کو گھیر رکھا ہے۔

جارج نے مزید کہا: ’خواتین چھوٹی عمر سے ہی ٹمپون اپنی آستین میں رکھنا شروع کر دیتی ہیں۔ ہمیں ثقافتی طور پر اس کا عادی بنا دیا گیا ہے کہ ہم اپنے بارے میں خاموش رہیں۔ ہمیں شعوری طور پر سکھایا جاتا ہے کہ ماہواری شرم ناک اور پریشان کن بات ہے اور اس موضوع پر خاموش رہنا چاہیے۔ سکول میں ماہواری منصوعات دیکھ کر بچیوں میں حوصلہ پیدا ہوگا کہ وہ فوری طور پر ماہواری اور اس کی مصنوعات پر بات کرنا شروع کریں۔‘

امیکا کے مطابق: ’جب سے انہوں نے مہم شروع کی ہے انہیں سوشل میڈیا پر ٹرولز کا سامنا ہے۔ بعض اوقات وضاحت کرنے پر مرد غصے میں آ جاتے ہیں کہ وہ ماہواری پر کھلے عام بات کر رہی ہیں۔ وہ اصرار کرتے ہیں کہ ماہواری مصنوعات خریدنے کی سکت نہ ہونا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ماہواری کراہت انگیز چیز ہے۔ آپ ایک کم عمر روایتی لڑکی ہیں جو چاہتی ہیں کہ ہر شے کا خرچہ حکومت اٹھائے۔ بعض اوقات وہ غلط مفروضہ قائم کر لیتے ہیں کہ والدین اس وجہ سے ماہواری مصنوعات نہیں خرید سکتے کہ وہ رقم شراب اور سگریٹوں پر خرچ کرتے ہیں۔‘

جارج نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ وہ یورپ بھر میں مہم چلائیں گی کہ پورے براعظم کے سکول اس مثال کی تقلید کرتے ہوئے ماہواری مصنوعات کی مفت فراہمی کی پیشکش کریں۔

تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ایسی خواتین جو ماہواری مصنوعات خریدنے کی سکت نہ رکھنے کے تجربے سے گزر چکی ہیں، ان کے معاملے میں اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ وہ بے چینی یا ڈپریشن کا شکار ہو جائیں اور اپنے اخراجات اٹھانا ان کے لیے مشکل ہو جائے۔

برسٹل میں جان کیبٹ اکیڈمی میں فزیکل ایجوکیشن کی استاد لوسی کینن نے کہا کہ لڑکیاں پڑھائی کے پورے دنوں میں سکول نہیں آتی تھیں، حتیٰ کہ سکول نے ریڈ باکس پراجیکٹ کے ساتھ مل کر ماہواری مصنوعات کی مفت فراہمی شروع کر دی۔

انہوں نے کہا: ’وہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہوتی تھیں۔ انہیں ماہواری شروع ہو جاتی اور وہ گھر چلی جاتیں اور کبھی کبھار ہی ایسا ہوتا کہ واپس آتیں یا پھر سادہ لفظوں میں وہ اتنی خوفزدہ ہوتی تھیں کہ ماہواری مصنوعات کے بغیر سکول نہیں آتی تھیں۔ ریڈ باکس متعارف کروائے جانے کے بعد ایک لڑکی نے مجھ سے کہا کہ میں دوبارہ بچہ نہیں بن سکتی۔ میں دن کے کھانے کے وقفے کے دوران کسی پریشانی کے بغیر ادھر ادھر بھاگ سکتی ہوں۔ اس سے پہلے مجھے تمام دن ایک ہی پیڈ میں گزارنا پڑتا تھا اس لیے مجھے اس کے لیک ہو جانے کی ہمیشہ پریشانی رہتی تھی۔‘

لوسی کینن کے مابق: ’ماہواری مصنوعات کی مفت پیشکش کی بدولت اس موضوع پر ہونے والی گفتگو بھی معمول پر آ گئی ہے۔ اب سکول میں لڑکوں سمیت ہر کوئی ماہواری کے بارے میں کھلے عام اور مثبت انداز میں بات کرتا ہے۔ حکومت کی جانب سے فنڈ کی فراہمی کا کام بہت سال پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ کچھ نہیں بدلا۔ ہم ہمیشہ سے خواتین ہیں۔ اب لوگوں نے بات سننی شروع کر دی ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی صحت