پاکستان کا میڈیا کتنا آزاد ہے؟

کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز کے مطابق 2019 پاکستانی میڈیا کے لیے مشکلات سے بھرپور رہا اوراسے مختلف قسم کی سختیوں اور سنسر شپ کا سامنا کرنا پڑا۔

ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں خراب کارکردگی رکھنے والے 180 ممالک میں پاکستان کا نمبر 142 ہے۔(اے ایف پی)

کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز 2019 کی اتوار کے روز جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق سال 2019 پاکستانی میڈیا کے لیے مشکلات سے بھرپور سال رہا اوراسے مختلف قسم کی سختیوں اور سنسر شپ کا سامنا کرنا پڑا۔ 

اسی حوالے سے صحافی و اینکر پرسن عاصمہ شیرازی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’2019 تو میڈیا کے لیےاچھا نہیں تھا لیکن 2020 میں بھی صحافیوں کے لیے کسی اچھے کی امید نہیں ہے کیوں کہ حکومت میڈیا اور سوشل میڈیا کے حوالے سے مزید قدغنیں لگانے کا سوچ رہی ہے اس حوالے سے حکومت کا ارادہ کچھ اچھا نظر نہیں آ رہا۔‘ 

انہوں نے مزید کہا کہ ’وزیراعظم نے اپنے بیان میں میڈیا سے سختی سے نمٹنے کا کہا ہے لیکن سمجھ نہیں آ رہی کہ میڈیا کے پاس آزادی ہے کون سی جو یہ چھیننا چاہ رہے ہیں؟ بہت سی باتیں ہیں جو ہم نہیں لکھ سکتے اور نہ ہی بول سکتے ہیں۔ پارلیمان اور اپوزیشن کے علاوہ کسی ادارے کے بارے میں بات نہیں کی جا سکتی تو پھر آزادی اظہار رائے کہاں ہے جس کو چھینا جائے گا؟‘

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے صدر شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ ’پاکستان میں میڈیا کی آزادی کو خطرہ ہے لیکن اس کے ذمہ داران خود میڈیا مالکان بھی ہیں۔ حکومت اور حکومتی ادارے بھی ذمہ دار ہیں۔ حکومت کا کام ہے کہ وہ کمیشن قائم کرے جو اس بات کا تعین کرے کہ گزشتہ دو سالوں میں میڈیا پر بحران کیوں آیا اور وجوہات کیا ہیں؟ مالکان نے ہزاروں کی تعداد میں صحافی بیروزگار کر دیے کیوں کہ اب صحافت مالکان کے لیے کاروبار ہے مشن نہیں رہا۔‘

کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز 2019 کی رپورٹ کے مطابق سال 2019 پاکستانی میڈیا کے لیے مشکلات سے بھرپور سال رہا اور مختلف قسم کی سختیوں اور سنسر شپ کا سامنا کرنا پڑا۔ صحافتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کرتے ہوئے گزشتہ برس سات صحافی قتل جب کہ 15 صحافی زخمی ہوئے۔ اسی طرح انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں 35 مقدمات میں 60 سے زائد صحافیوں کو نامزد کیا گیا۔

سوال یہ ہے کہ کیا اب صحافت بھی دہشت گردی کے زمرے میں آئے گی؟ 

شہزادہ ذوالفقار نے کہا کہ ’دہشت گردی بہت بڑا جرم ہے، یہ ملک سے کھیلنے والی بات ہے۔ ادارے صحافی سے ناراض ضرور ہوں لیکن اُن پر وہ کیس کریں جو کوئی مانے بھی، صرف اس کو پھنسانے کے لیے کیس نہ بنائیں۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر کسی صحافی کے خلاف ایسے ثبوت ہیں کہ وہ دشمن عناصر کا سہولت کار بن چکا ہے تو پھر ضرور کارروائی کریں۔‘

پاکستان میں صحافیوں کوکس قسم کی آزادی درکار ہے؟ کیا صحافی کی بھی کوئی حدود و قیود ہیں ؟

پاکستان فیڈرل یونین کے صدر شہزادہ ذوالفقار نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’صحافی کی بھی حدود ہیں، ایسا بالکل نہیں ہے کہ صحافی مادر پدر آزاد ہیں۔ جو صحافی کسی کے آلہ کار بنتے ہیں یا ایجنڈے پر مبنی صحافت کرتے ہیں ان کی ہم بالکل حمایت نہیں کرتے۔‘ انہوں نے کہا کہ صحافت ایک مشن ہے کہ عوام کو سچ بتایا جائے لیکن اس مشن بھی ذاتی پسند و ناپسند یا کسی کے خلاف بغض پر مبنی صحافت، عملی صحافت نہیں کہلائے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عاصمہ شیرازی نے کہا کہ ’بطور صحافی ہماری بھی حدود ہیں اور جو اصلی صحافی ہیں وہ اپنی ذمہ داری سے بخوبی آگاہ ہیں اور صحافت میں موجود کالی بھیڑوں کے لیے صحافتی تنظیموں کو احتساب کا نظام بنانا چاہیے۔‘ جب اُن سے پوچھا گیا کہ صحافی کو کس قسم کی آزادی چاہیے تو انہوں نے کہا کہ ’بہت سے اداروں پر ہم کُھل کر تنقید نہیں کر سکتے۔ تنقید سے اداروں کی پرفارمنس بہتر ہوتی ہے۔ تنقید برائے اصلاح ہونی چاہیے لیکن تنقید برائے اصلاح کی بھی اجازت نہیں ہے۔‘

رپورٹ میں پیمرا کے کردار پر بھی تنقید کی گئی کہ گزشتہ برس پیمرا نے بلاوجہ مختلف ٹی وی چینلز اور صحافیوں کو نوٹسز بھجوا کر اپنی حدود سے تجاوز کیا۔ اپوزیشن کے بیانات نشر کرنے پر پابندی لگائی گئی۔

شہزادہ ذوالفقار نے کہا کہ ’اگر کوئی اینکر غلط حرکت ہے اور پیمرا اُس کو نوٹس جاری کرے تو ہم اس اینکر کی غلط حرکت کی حمایت نہیں کریں گے لیکن پیمرا صرف اینکر پر پابندی نہ لگائے بلکہ دوسرے فریق پر بھی اس سے بڑھ کر پابندی عائد کرے۔‘

عاصمہ شیرازی نے کہا کہ ’پیمرا کی کوئی حدود ہی نہیں ہیں کیوں کہ پیمرا کو ایک غیر خود مختار ادارہ بنا دیا گیا ہے اور پیمرا کے اختیارات کو کہیں اور سے استعمال کیا جا رہا ہے۔‘

ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں خراب کارکردگی رکھنے والے 180 ممالک میں پاکستان کا نمبر 142 ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان