​​​​​​​سات گھنٹے زیر حراست رہنے کے بعد سماجی کارکن جلیلہ حیدر رہا

​​​​​​​لندن کی پرواز کے لیے لاہور ایئر پورٹ پر آئی سماجی کارکن جلیلہ حیدر کو ایف آئی اے کے اہلکاروں نے حراست میں لے کر ان کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ ضبط کر لیا، تاہم سات گھنٹے بعد انہیں چھوڑ دیا گیا۔

حکام کے مطابق جلیلہ حیدر کا نام 15 نومبر کو ای سی ایل میں شامل کیا گیا (بشکریہ جلیلہ حیدرٹوئٹر)

انسانی حقوق کی سرگرم کارکن ایڈووکیٹ جلیلہ حیدر کو سات گھنٹے حراست میں رکھنے کے بعد علامہ اقبال ایئر پورٹ کی امیگریشن انتظامیہ نے رہا کر دیا۔

پیر کی صبح  چار بجے جلیلہ حیدر کو ایئر پورٹ امیگریشن پرموجود ایف آئی اے کے عملہ نے حراست میں لیا۔ وہ چھ بجے  کی ترکش ایئرلائن کی پرواز سے لندن جا رہی  تھیں جہاں انھیں سسکس یونیورسٹی میں منعقد ہونے والے ویمن کولیشن سپورٹ پرگرام میں شمولیت کرنی تھی۔ اس پروگرام میں جلیلہ سمیت پاکستان سے چار خواتین کو مدعو کیا گیا تھا۔

 ایئر پورٹ امیگریشن حکام نے جلیلہ کو حراست میں لے کر ان کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بھی ضبط کیا اور انھیں بتایا کہ ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل ہے اور وہ ملک سے باہر نہیں جاسکتیں۔ انھیں بتایا گیا کہ ان کا نام اسلام آباد سے ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا گیا ہے۔

جلیلہ حیدر نے انڈپینڈنٹ اردو سے فون پر بات کی اور بتایا کہ  سات گھنٹے زیرحراست رہنے کے بعد انھیں پاسپورٹ اور شناختی کارڈ واپس کر کے امیگریشن حکام نے کہا کہ وہ جاسکتی ہیں اور چاہیں تو اگلی پرواز سے لندن چلی جائیں۔

جلیلہ کے مطابق وہ سات گھنٹے زیر حراست رہیں جس دوران انھیں  خود کو ہراساں ہوتے ہوئے محسوس کیا کیونکہ انھیں کوئی کچھ نہیں بتا رہا تھا نہ ان سے کسی نے کوئی تفتیش کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انھوں نے کہا: ’مجھ سے بس یہی کہا کہ آپ ریاست کے خلاف سرگرمیوں میں شامل ہیں اسی لیے آپ کا نام اسلام آباد سے ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا گیا ہے اور آپ ملک سے باہر نہیں جاسکتیں۔‘

 جلیلہ  کا کہنا تھا کہ انھیں امیگریشن حکام نے بتایا کہ ان کا نام 15 نومبر سے ای سی ایل میں شامل ہے جبکہ  وہ تو اس بارے میں کچھ نہیں جانتی تھیں۔ انھوں نے کہا: ’ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں نام تب ہوتا جب میرے خلاف کہیں کوئی ایف آئی آر کٹی ہوتی یا مجھے لسٹ میں نام شامل کرنے کا نوٹس موصول ہو جبکہ مجھے تو ایئر پورٹ انتظامیہ سے معلوم ہوا کہ میرا نام ای سی ایل میں ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا: ’جب میں نے ان سے لسٹ مانگی تو انھوں نے کمپیوٹر سے ایک لسٹ نکالی جس میں میرا نام لکھا تھا اور اسی کا پرنٹ نکال کرمجھے دے دیا۔‘

 جلیلہ کا کہنا ہے کہ وہ کچھ عرصہ سے  لاپتہ افراد اور ہزارہ کمیونٹی کے حوالے سے آواز بلند کر رہی تھیں جس کی وجہ سے انھیں سزا دی گئی۔  

حراست سے رہا ہونے کے بعد ان کا کہنا تھا: ’میں لندن نہیں جارہی، ابھی تو میں گھر جانا چاہتی ہوں تاکہ تھوڑا آرام کروں اور سوچوں کہ میرے ساتھ ہوا کیا ہے۔‘

 ان کا کہنا تھا کہ وہ اس کی تحقیقات کریں گی کہ انھیں بتائے بغیر ان کا نام ای سی ایل میں کیوں ڈالا گیا یا  آیا ایسا ہوا کہ نام کبھی ڈالا ہی نہیں گیا تھا اور انھیں صرف ہراساں کرنے کے لیے یہ سب کیا گیا تھا۔  اس کے بعد وہ اس سارے معاملے کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گی۔

جلیلہ کی حراست کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے متعدد بار ایف آئی اے اور علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئر پورٹ کی امیگریشن انتظامیہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر ان میں سے کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔

جلیلہ حیدر کے وکیل اسد جمال بھی ایئر پورٹ پرموجود تھے۔ انھوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سات گھنٹے بعد ایئر پورٹ امیگریشن کی انچارج مس بشریٰ نے جلیلہ کو رہا کر دیا اور ان کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بھی ان کے حوالے کر دیا۔

ان کا کہنا تھا : ’حکام نے انھیں چھوڑتے ہوئے کہا کہ آپ اگلی فلائٹ سے لندن جاسکتی ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ صرف جلیلہ کو ہراساں کرنے کے لیے کیا گیا اور ان کا نام کبھی ای سی ایل لسٹ میں تھا ہی نہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ چونکہ جلیلہ کے خلاف نہ کوئی کیس ہے نہ کوئی ایف آئی آر ہے اور میڈیا پر خبر آنے سے حکام پر بھی پریشر آیا جس کے بعد انھوں نے جلیلہ کو جانے دیا۔ ’یہ صاف لگتا ہے کہ حکام کی جانب سے جلیلہ اور ان جیسے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے اور ان کے لیے آواز بلند کرنے والوں کو دھمکایا گیا ہے کہ اگر وہ نہیں رکیں گے تو ان کے خلاف ایکشن ہو سکتا ہے۔ ‘

جلیلہ کی حراست کے بعد لاہور ایئر پورٹ پر جلیلہ کی بہنیں ڈاکٹر عالیہ حیدر اور شکیلہ حیدر سمیت سول سوسائٹی، انسانی حقوق کے کارکن اور پاکستان سٹوڈنٹس کولیکٹیو کے ارکان بھی پہنچ گئے۔ ساتھ ہی ساتھ سوشل میڈیا پر بھی جلیلہ حیدر کی حراست کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ جس کے بعد مختلف لوگوں نے ان کی حراست کے خلاف بات کی اور ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔

اس سے قبل ان کی بہن عالیہ حیدر نے ٹویٹ میں کہا تھا کہ وہ ایئرپورٹ پر ہیں جہاں انھیں کچھ بتایا نہیں جا رہا کہ جلیلہ کو کیوں روکا گیا ہے۔ 

ٹوئٹر پر ان کی حراست کے خلاف تبصرے جاری رہے۔

 

کچھ عرصہ قبل جلیلہ حیدر کا نام بی بی سی کی 100 پر اثر خواتین میں شامل کیا جا چکا ہے اور چونکہ وہ ایک بین الاقوامی پروگرام میں شرکت کے لیے لندن جارہیں تھیں اس لیے ان کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ جلیلہ کی حراست کے خلاف بین الاقوامی ردعمل بھی سامنے آئے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان