چکن ہی کھانا تھا تو اسلام آباد سے طورخم کیوں آئے؟

ایک اتوار، پانچ کولیگ اور دارالحکومت اسلام آباد سے براستہ پشاور، پاکستان اور افغانستان کی سرحد طورخم تک کے سفر کی داستان

کھانا واقعی لذیذ تھا۔ 

’وہ دیکھیں، چِپ والے پرندے اڑ رہے ہیں،‘ میرے دفتر کے ساتھی نے آسمان پر اڑتے کبوتروں کی جانب اشارہ کیا۔ سب نے ایک نظر اوپر دیکھا لیکن میں نے ایک قدم آگے بڑھ کر سوال کرنا لازمی سمجھا: ’کیا واقعی یہ چِپ والے ہیں؟‘ جس پر ایک دم خاموشی چھا گئی اور مجھے یوں گھور کے دیکھا گیا، جیسے باخدا میں نے صحافی کالونی میں ملنے والا کوئی پلاٹ مانگ لیا ہو۔

بھئی آپ خود سوچیں، پڑوسی ملک کی سرحد کے ساتھ کھڑے ہو کر آپ کے ذہن میں چِپ والے جاسوس کبوتروں کا کیا خیال نہیں آئے گا؟ لیکن پھر اپنے خیال پر لاحول پڑھ کر ہم واپسی کو مڑ گئے، کیونکہ جس گلی ہم نے جانا تھا، وہاں اینٹیں چنوا کے اسے بند کر دیا گیا تھا۔

یہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر بنا طورخم گیٹ تھا۔ میں کافی دنوں سے کارخانو مارکیٹ اور طورخم جانے کا نعرہ لگا رہی تھی، لیکن آگے سے یہی سننے کو ملتا: ’آپ نےکون سا چپلی کباب، مٹن یا دنبہ کھانا ہے۔‘ اس پر میرا جواب ہوتا: ’اور بھی غم ہیں زمانے میں بڑے کے گوشت کھانے کے سوا!‘ لیکن کبھی وقت نہ ملا، کبھی سب کو ایک ساتھ چھٹی نہ ملی اور کبھی کسی اور وجہ سے یہ پروگرام ٹلتا رہا۔

اور آخرکار ایک اتوار کو وہ تاریخی دن آ ہی گیا، جب ہم پانچ متوالے کولیگز اسلام آباد سے روانہ ہوئے۔ منزل تو ہماری طورخم سرحد تھی، لیکن بیچ میں ایک پڑاؤ پشاور میں بھی ڈالنا تھا۔ راستے بھر اس بات پر بحث ہوتی رہی کہ کون سا گانا لگانا ہے۔ بھئی پانچ لوگ اور پانچوں کی اپنی اپنی پسند، لیکن موٹروے پر انٹرنیٹ سگنل نہ ہونے کی وجہ سے گاڑی والے کولیگ کی پلے لسٹ پر ہی اکتفا کرنا پڑا، جو بیچارے نہایت شرافت سے اپنے گانوں کی چوائس پر سب کی جلی کٹی سن رہے تھے، لیکن مجال ہے جو آگے سے ایک بھی لفظ کہا ہو، یعنی ایک کان سے سن کے دوسرے سے نکال دینے کی عملی مثال بنے ہوئے تھے۔ جس طرح مسئلہ کشمیر اب تک حل نہیں ہو سکا، گاڑی میں گانوں کا مسئلہ بھی حل نہ ہوا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خیر ہم جو صبح ساڑھے آٹھ بجے کے لگ بھگ اسلام آباد سے نکلے تھے، 11 بجے سے پہلے ہی پشاور کی حدود میں داخل ہو کر ایک دوسرے کو ’پخیر راغلے‘ کہہ رہے تھے۔ گروپ میں شامل واحد پختون کولیگ نے پشاور میں کسی کام کا حوالہ دے کر آگے جانے سے معذرت کرنی چاہی، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ہم میں سے کسی کو پشتو نہیں آتی تھی اور دوسرا کھانا بھی انہوں نے ہی کھلانا تھا، لہذا ہم نے ان کی ایک نہ سنی اور فرار کی راہیں مسدود کرتے ہوئے اس بات پر راضی کر ہی لیا کہ جب تک ہم ناشتے سے فارغ ہوتے ہیں، وہ اپنا کام کر آئیں۔

ناشتے کے لیے ہم نے پڑاؤ ڈالا پشاور کینٹ میں واقع آر اے بازار کی ایک چھوٹی سی دکان میں۔ حلوہ پوری اور چنے کا ناشتہ کرتے ہوئے محسوس ہوا کہ دکان میں خریداروں کا رش یکدم بڑھ گیا ہے۔ ہمارے کولیگ نے ہنستے ہوئے کہا: ’یار آپ لوگوں کی وجہ سے دکان میں زیادہ لوگ آرہے ہیں،‘ وجہ صاف ظاہر تھی ہم تین خواتین شاید وہاں خلائی مخلوق لگ رہی تھیں، لیکن اس وقت ہمیں ناشتے سے زیادہ اور کسی چیز کی فکر نہ تھی۔

آر اے بازار سے نکلے تو ہمارے بچھڑے ہوئے کولیگ بھی گینگ میں شامل ہوگئے۔ ہمارا ارادہ تھا پہلے کارخانو بازار جا کے وہاں سے کچھ خریداری کرنے کا، لیکن ہمارے ان کولیگ نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے دور سے ہی کارخانو بازار دکھا دیا، جیسے کہہ رہے ہوں، ’وہ رہا کارخانو بازار، ذرا دیکھ کر ہاتھ ہلا دیں۔‘

کارخانو سے آگے بڑھے تو جمرود کے مقام پر مشہور زمانہ ’بابِ خیبر‘ نظر آیا۔ وہ بابِ خیبر جسے ہمیشہ دس روپے کے نوٹ پر دیکھا کرتے تھے، آج بالکل سچی مچی آنکھوں کے سامنے تھا۔ گاڑی سے اترنے کی زحمت تو نہیں کی لیکن موبائل میں تصویریں محفوظ کر کے اس سفر کو ہمیشہ کے لیے یادگار ضرور بنا لیا۔

 ہم طورخم ہائی وے پر سفر کر رہے تھے، جسے فرنٹیئر ورکس آرگنازئزیشن (ایف ڈبلیو او) نے تعمیر کروایا ہے۔ آگے کا سارا راستہ سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان بل کھاتی سڑک سے ہوکر گزرا۔ راستے میں کہیں کہیں آبادی بھی نظر آئی اور اپنے مکینوں کی زبوں حالی کی داستان سناتے کچے مکانات بھی۔

کاندھوں پر لکڑیاں اٹھائے پہاڑ پر چڑھتے، اترتے بچوں کو دیکھا تو ذہن بھٹک کر یہی کوئی 70 سال پہلے چلا گیا، ایک چھوٹا سا دبلا پتلا سا لڑکا کئی کلومیٹر کا سفر پیدل طے کر سکول سے واپس آتا ہے اور پھر بستہ رکھ کر انہی قدموں پر واپس چلا جاتا ہے، اسے گھر میں جلانے کے لیے لکڑیاں بھی کاٹ کر لانی ہیں اور پینے کے لیے پانی بھی بھر کر لانا ہے۔ یہ میرے والد صاحب ہیں، جن کے منہ سے میں نے ان کے بچپن کے بہت سارے قصے سن رکھے ہیں، لیکن کبھی وہ سب محسوس نہیں کر سکی تھی، اس وقت نہ جانے کیوں آنکھیں بھیگنے لگیں۔ میں نے اپنی توجہ گاڑی کے اندر موجود افراد پر مبذول کرنی چاہی، جو ابھی تک اس بات پر ہی جھگڑ رہے تھے کہ سافٹ میوزک لگانا ہے یا تیز۔  


راستے میں جگہ جگہ ہمیں بہت سے قلعے بھی نظر آئے، جن کے بارے میں بتایا گیا کہ ان میں سے بیشتر مبینہ ڈرگ سمگلروں کے ہیں، معلوم نہیں ابھی فنکشنل ہیں یا نہیں، لیکن ان کی بلند و بالا دیواروں اور فصیلوں کو دیکھ کر ان سمگلروں کی ہیبت کا بخوبی اندازہ ہو رہا تھا۔

ایک مقام پر ایک یادگار نظر آئی، گاڑی روک کر ہم پانچوں ٹانگیں سیدھی کرنے اور تصویریں لینے اتر گئے اور یہ دیکھ کر کافی ’فخر‘ محسوس ہوا کہ اس چھوٹے سے مونومنٹ کی تعمیر کے لیے بھی پیسہ یو ایس ایڈ یعنی امریکیوں نے دیا ہے۔ بھئی واہ!


پہاڑوں کو کاٹ کر بنائی گئی انگریز دور کی سرنگیں بھی جا بجا نظر آئیں، جن کے بیچوں بیچ بچھی پٹڑیوں پر سے اب کوئی ٹرین نہیں گزرتی۔ ایسی ہی ایک سرنگ میں ہم بھی جا پہنچے۔ وہاں لگی تختی کے مطابق ’Digai‘ نامی اس سرنگ کی تعمیر 1922 میں ہوئی تھی۔

مٹیالے سنگلاخ پہاڑ کے درمیان بنی اس سرنگ میں سے کسی زمانے میں گزری ٹرین میں کتنے لوگوں نے سفر کیا ہوگا۔ کتنے لوگوں کی یادیں یہاں سے وابستہ ہوں گی؟ یہ سرنگ بھی ایسی ان گنت یادوں کی امین ہے۔



لنڈی کوتل سے گزر کر جب طورخم ہائی وے کا زِگ زیگ کچھ کم ہوا تو ہمارے بائیں ہاتھ پر ایک سڑک تھوڑا نیچے کو جا رہی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں تیمور لنگ نے ایک پھانسی گھاٹ بنوایا تھا، جہاں زندہ انسانوں کو ایک بڑی مشین میں ڈال کر ان کا قیمہ بنا دیا جاتا تھا۔ اب سچائی کیا ہے، اس بارے میں تو وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ بس ہم نے دور دور سے ہی اس جائے عبرت کو دیکھا اور بالا ہی بالا اپنا سفر جاری رکھا۔

اور پھر ہم منزل کے قریب پہنچ ہی گئے۔ گاڑی کو سڑک کنارے بنے پارکنگ ایریا میں کھڑا کرکے ہم آگے کو پیدل نکلے تاکہ طورخم گیٹ کو دیکھ سکیں، لیکن یہ کیا جس پل کے اوپر سے طورخم گیٹ اور اس پار افغانستان صاف نظر آتا ہے، وہاں جانے والی جگہ کو اینٹیں لگا کر بند کردیا گیا تھا۔ مایوسی ہوئی لیکن سکیورٹی بھی کسی چڑیا کا نام ہے۔ مجبوراً ہم پیچھے والے پل پر جاپہنچے، جہاں سے پاکستان اور افغانستان کی سرحدیں متعین کرنے کے لیے پہاڑوں پر نصب کی جانے والی باڑ بھی صاف نظر آرہی تھی۔




نیچے سڑک پر بڑے بڑے کنٹینروں اور ٹرکوں کی قطاریں تھیں، جب کہ سڑک کے ایک جانب بنے ہوئے جنگلے میں سے افغانستان آنے جانے والے افراد سکیورٹی چیک پوسٹ سے گزر رہے تھے۔ کوئی وہیل چیئر پر علاج کی غرض سے آیا تھا، کوئی ملازمت کی تلاش میں تو کوئی اپنے کسی پیارے سے ملنے۔ ہر چہرے پر ایک الگ ہی داستان تھی، لیکن غربت اور مجبوری کی کہانی کم و بیش ہر کوئی سنا رہا تھا۔



واپسی میں پارکنگ کی طرف جاتے ہوئے کچرا چننے والی ایک چھوٹی سی بچی شاید سستانے کو بیٹھی نظر آئی۔ ہمیں دیکھ کر اس نے شرماتے ہوئے چہرہ گھٹنوں میں دے دیا۔ سوچا اس سے بات کروں، لیکن پھر خیال آیا کہ کیا بات کروں اور کس منہ سے بات کروں۔ سر جھٹک کر آگے بڑھ گئے۔

واپسی کا سفر شروع ہوچکا تھا۔ ان ہی راستوں پہ چل کے ہم دوبارہ پشاور آن پہنچے اور وہ بھی کارخانو بازار میں۔ دو تین گلیوں کا چکر لگایا، دل کے بہلانے کو کچھ کھلونے وغیرہ خریدے (اپنے لیے نہیں) اور پھر روانہ ہوگئے کیونکہ پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے، جن کی ریس ختم ہونے کے لیے کھانا ضروری تھا۔

تقریباً ساڑھے چھ بجے کے قریب ہم رِنگ روڈ پر واقع ایک ریسٹورنٹ میں داخل ہوئے اور وہاں پڑاؤ ڈال لیا۔ حسب عادت ہم خواتین نے مچھلی اور چکن کی ڈشز پر اکتفا کیا جب کہ مرد حضرات نے دنبے پر ہاتھ صاف کرنا پسند کیا، لیکن کھانے کے بعد اسلام آباد واپسی کے سفر کے وقت یہ طعنہ ضرور سننے کو ملا: ’یار آپ نے ادھر آ کر بھی چکن ہی کھانا تھا تو وہیں کھا لیتے۔‘ اور ہمارا جواب پھر وہی ’ہمیں خیبرپختونخوا کا چکن کھانا تھا!‘

(تصاویر: انڈپینڈنٹ اردو)

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ