وفاق جام کمال کی حکومت کو تسلیم ہی نہیں کرتا: نیشنل پارٹی

بلوچستان میں اپوزیشن جماعت نیشنل پارٹی کے رہنما اور سابق دور حکومت کے صوبائی ترجمان جان محمد بلیدی کا کہنا ہے کہ عوامی مینڈیٹ نہ ہونے سے بلوچستان حکومت کی کوئی نہیں سنتا۔

 جان محمد بلیدی کا کہنا تھا کہ صوبے کے نمائندے کے طور پر  وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کو یہاں بیٹھ کر شکوہ کرنے کے بجائے وفاق میں موثر آواز اٹھانی چاہیے۔ (ریڈیو پاکستان)

وفاقی حکومت کا عدم تعاون اور بلوچستان میں حالیہ قدرتی آفت کے دوران سرد مہری نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ جہاں  وزیر اعلیٰ جام کمال نے وفاقی حکومت سے بلوچستان میں دلچسپی نہ لینے کا شکوہ کیا ہے وہیں حزب اختلاف کی  جماعتیں سمجھتی ہیں کہ یہ کوئی بڑی آفت نہیں تھی جس سے صوبائی حکومت بالکل مفلوج ہوگئی۔

نیشنل پارٹی کے  سینیئر رہنما اور سابق دور حکومت کے صوبائی ترجمان جان محمد بلیدی نے وزیراعلیٰ بلوچستان کے وفاق سے شکوہ کرنے پر کہا کہ وفاق جام کمال کی موجودہ حکومت کو تسلیم ہی نہیں کرتا اور ایسے میں شکوہ ہی کر سکتے ہیں۔

جان بلیدی نے کہا: ’ہماری (نیشنل پارٹی) اور موجودہ حکومت (بلوچستان عوامی پارٹی) کی حکومت کا تقابل ہی نہیں کیا جا سکتا۔ ہم میں ہم آہنگی تھی اور وفاق کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات بنا کر رکھے تھے۔‘

11 اور 12 جنوری کو بلوچستان کے سات اضلاع میں شدید برف باری ہوئی جس کے نتیجے میں صوبے بھر میں حادثات و واقعات میں 20 افراد ہلاک ہوئے۔

جان بلیدی کے بقول :’بارش اور برف باری اتنی بڑی قدرتی آفت نہیں تھی، صرف چند سڑکیں بند ہوئیں اور پوری حکومت ہی مفلوج ہوگئی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کے دور حکومت میں  بھی قدرتی آفات آئیں اور 2013 ضلع  آواران میں زلزلہ آیا جس میں  چھ سو  سے زیادہ افراد ہلاک جبکہ ہزاروں لوگ بے گھر ہوگئے، تب بھی نہ صرف صوبے نے اپنا کام  جاری رکھا بلکہ وفاق او راس کے ادارے بھی ساتھ کھڑے رہے۔

جان بلیدی سمجھتے ہیں کہ وفاق جام کمال کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتا۔ ’یہی وجہ ہے کہ اس  کی بات کی اہمیت ہی نہیں ہے نہ ان کے پاس مینڈیٹ ہے۔ ہم جب حکومت میں آئے تو عوام کا مینڈیٹ لے کر آئے تھے۔‘

نیشنل پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا: ’وفاقی حکومت ناکام ہوچکی ہے۔ ہمیں معیشت کی بہتری کی امید نہیں۔ بے روزگاری اور غربت ہے، پیٹرول کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور صوبوں کے درمیان بھی ہم آہنگی نہیں، یہاں تک کہ آٹا بھی نہیں مل رہا۔ ہمارے دور میں نہ صرف وفاق بلکہ صوبے بھی تعاون کرتے رہے۔‘

وفاقی حکومت کو ناکام قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا اس کے دور میں صرف وزرا ٹی وی پر آکر غلط بیانی کرتے ہیں نہ معیشت اور پالیسی پر۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ صوبے کے نمائندے کے طور پر وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کو یہاں بیٹھ کر شکوہ کرنے کے بجائے وفاق میں موثر آواز اٹھانی چاہیے۔

دوسری جانب معروف تجزیہ نگار اور سینیئر صحافی شہزاد ذوالفقار سمجھتے ہیں کہ وفاقی حکومت کا رویہ ہمیشہ سے بلوچستان کے ساتھ صحیح نہیں رہا۔ ان کے مطابق جام کمال کا شکوہ بجا ہے کیونکہ حالیہ شدید برف باری اور بارش کے دوران بلوچستان کو مکمل نظر انداز کیا گیا۔

شہزادہ ذوالفقار کے بقول: ’وفاقی ادارے نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ کا کردار بلوچستان میں یہ رہا کہ صرف لوگوں کو اطلاع دیتے رہے کہ اس وقت گھروں سے نہ نکلیں یاقومی شاہراہوں پر سفر نہ کریں۔ اگر یہی برف باری کہیں اور ہوتی تو ٹی وی چینلز ،نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اور دیگر ادارے موجود ہوتے لیکن بلوچستان میں  ایسا کچھ نہیں دیکھنے میں آیا۔‘

شہزادہ ذوالفقار کے مطابق، بلوچستان میں چاہیے ون یونٹ کے بعد سردار عطا اللہ مینگل کی حکومت ہو، یا جام محمد یوسف ،جام غلام قادر، نواب اکبر خان بگٹی، نواب مگسی اورسردار اختر مینگل کی حکومت رہی ہو، سب کا وفاق سے شکوہ رہا ہے۔

شہزادہ ذوالفقار نے کہا: ’اگر کسی کو تکلیف ہوتی ہے تو وہ آواز بلند کرتا ہے۔ جام کمال نے بھی اسی وجہ سے شکوہ کیا کہ یہاں ایک بڑا قدرتی مسئلہ ہوا ہے، وفاق کو توجہ دینی چاہیے تھی۔‘

وزیر اعلیٰ جام کمال کی حکومت کو اس طرح کے مسائل سے کس طرح نمٹنا چاہیے کہ سوال پر شہزادہ ذوالفقار نے کہا کہ انھیں تمام اپوزیشن جماعتوں اور دیگر جماعتوں جیسے بی این پی، جے یو آئی کو ساتھ ملا کر اسلام آباد میں بیٹھ کر اپنے حقوق کے لیے لڑنا چاہیے۔

انھوں نے کہا: ’اٹھارویں  ترمیم کے بعد وسائل کا اختیار صوبے کے پاس آگیا لیکن بلوچستان حکومت کو ابھی تک یہ معلوم نہیں کہ یہاں سے گیس کی پیداوار کتنی ہے دیگر صوبوں کو کتنے میں فروخت ہوتی ہے۔‘

شہزادہ ذوالفقار نے کہا کہ بلوچستان سے گیس نکالنے والی پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ کا معاہدہ 2017 میں ختم ہوگیا اب وہ دوبارہ سابقہ ریٹ پر معاہدہ کرنا چاہتے ہیں جسے جام کمال کی حکومت نے رد کردیا۔

ان کے مطابق پی پی ایل کے معاہدے کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین بلوچستان آئے اور صوبائی حکومت پر دباؤ ڈالا کہ معاہدے کی تجدید کرے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔

انھوں نے کہا: ’جام کمال کی حکومت کو اپنے صوبے کے حقوق  کے لیے سب کو اکٹھا کرنا ہوگا کیونکہ ایسا کوئی نہیں ہوگا جو صوبے کے حقوق پر اختلاف کرےاور جدوجہد میں ساتھ نہ دے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست