ملتان کا ’کمپیوٹر‘ پراٹھا

ملتان کے ایک پراٹھا فروش عبدالرحمٰن پراٹھے کے نئے ذائقے میں ایک کی بجائے پانچ قدم آگے نکل گئے ہیں۔

پراٹھے کو صرف ناشتے میں کھانے کا رواج تو نہ جانے کب سے کم ہو گیا لیکن اسے ایک ہی طرح کھانے کے رواج میں تبدیلی آ رہی ہے۔

ملتان کے ایک پراٹھا فروش عبدالرحمٰن پراٹھے کے نئے ذائقے میں ایک کی بجائے پانچ قدم آگے نکل گئے ہیں۔

انھوں نے دوستوں کے مشورے پر اپنے منفرد پراٹھے کو ’کمپیوٹر‘ پراٹھے کا نام دے دیا حالانکہ کہ ان کی دکان یا وہاں بننے والے پراٹھوں کا دور دور تک کمپیوٹر ٹیکنالوجی سے کوئی تعلق نہیں۔

عبدالرحمٰن نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اپنی ایجاد کی تاریخ کچھ یوں بتائی۔ ’پہلے ہم نے دو تین طرح کے پراٹھے شروع کیے، جن میں سادہ، آلو اور انڈے والا پراٹھا شامل تھا۔ جب ہمارے پراٹھے چلنا شروع ہو گئے تو کچھ دوستوں نے کہا کہ نئی ورائٹی پیش کرو۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کہتے ہیں جتنے منہ اتنی باتیں، لیکن عبدالرحمٰن کے دوستوں کی اچھے پراٹھے کے لیے جستجو پر یوں کہا جا سکتا ہے کہ ’جتنے دوست اتنے ذائقے۔‘

سب دوستوں کے مشوروں اور اتفاقِ رائے کا نتیجہ یہ نکلا کہ لگ بھگ سبھی روایتی ذائقوں کو ایک ہی پراٹھے میں تل لیا جائے۔

عبدالرحمٰن کے مطابق: ’ایک دوست نے مشورہ دیا کہ آپ اس کا نام کمپیوٹر پراٹھا رکھ دیں۔ میں نے کہا کہ یہ کمپیوٹر پراٹھا تو نہیں بنتا۔ اس نے کہا نہیں، اتنے ذائقے تو ایک کمپیوٹر میں ڈال دیں تو اس سے بھی نہیں نکلیں گے۔‘

مچھلی، قیمے، مرغی، آلو اور شکر کے مصالحے دار اور میٹھے ذائقے کو ایک ہی پراٹھے میں تل کر ملتان میں ’کمپیوٹر‘ پراٹھا بنتا ہے۔

ذائقوں کی رہی سہی کسر اس پر فرائی کیے گئے انڈے اور ٹماٹر وغیرہ سے پوری ہو جاتی ہے۔

ظاہری بات ہے اتنی چیزوں کی وجہ سے یہ پراٹھا خاصا بڑا اور بھاری ہو جاتا ہے اور تین سے چار لوگوں کا پیٹ بھر دیتا ہے۔ اس پراٹھے کی قیمت صرف 160 روپے ہے۔

عبدالرحمٰن کے ’کمپیوٹر‘ پراٹھے کے زیادہ تر گاہک طالب علم اور متوسط طبقے کے لوگ ہیں جو ناشتے کی بجائے دن یا رات کے وقت پراٹھا کھانے آتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا