پاکستان اور بھارتی کشیدگی اور چین کا مخمصہ

پلوامہ حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان روز بروز بڑھتی ہوئی کشیدگی میں چین نے بےحد محتاط انداز اپنایا ہے اور اس نے بظاہر ’سدابہار دوست‘ پاکستان کی کھلم کھلا حمایت سے گریز کیا ہے۔

پلوامہ حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان روز بروز بڑھتی ہوئی کشیدگی میں چین نے بےحد محتاط انداز اپنایا ہے اور اس نے بظاہر اپنے ’سدابہار دوست‘ پاکستان کی کھلم کھلا حمایت کرنے سے گریز کیا ہے۔

26 فروری کو بالاکوٹ کے قریب جابہ کے مقام پر بھارتی جنگی طیاروں کی بمباری کے بعد سے دونوں ملکوں کی درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ گئی ہے اور دنیا کے کئی رہنماؤں نے دونوں ملکوں پر زور دیا ہے کہ وہ تحمل سے کام لیں۔

اس موقعے پر چین نے جو بیان دیا اس میں کھل کر بھارت کا نام نہیں لیا گیا: ’چین سمجھتا ہے کہ تمام ملکوں کی خودمختاری اور جغرافیائی سالمیت کا احترام کیا جانا چاہیے۔ ہم کسی بھی ایسے اقدام کے خلاف ہیں جو اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کے منافی ہو۔‘

پاکستانی وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے چینی ہم منصب وانگ یی سے فون پر بات کر اس معاملے پر مدد چاہی مگر انہوں نے بھی یہی کہا کہ ’چین امید رکھتا ہے کہ پاکستان اور بھارت تحمل کا مظاہرہ کریں گے اور صورتِ حال کو بگاڑنے سے بچانے کے اپنے عزم کو پورا کریں گے۔‘

سلامتی کونسل میں مسعود اظہر کا معاملہ

اس کے علاوہ اس معاملے میں چین کو سلامتی کونسل میں بھی مشکل کا سامنا ہے۔

برطانیہ فرانس اور امریکہ نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے کہا ہے کہ وہ جیشِ محمد کے مبینہ سربراہ مولانا مسعود اظہر کا نام دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرے۔

14 فروری کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ میں ہونے والے ایک خودکش حملے میں 40 سے زیادہ فوجیوں کی ہلاکت کے بعد جیشِ محمد نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی، جس کے بعد انڈیا نے 26 فروری کو پاکستان کے اندر حملہ کیا جس کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ وہ جیشِ محمد کے خلاف تھا۔

فہرست میں شامل ہونے کے بعد مسعود اظہر کے دوسرے ملکوں کے سفر پر پابندی لگ جائے گی اور پاکستان پر زور دیا جائے گا کہ وہ ان کے اثاثے منجمد کر دے۔

یہ بھارت کی جانب سے مسعود اظہر کا نام دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کی تیسری کوشش ہے۔ تاہم 2016 اور 2017 میں چین ویٹو کا حق استعمال کر کے ان کوششوں کو ناکام بناتا رہا ہے۔ البتہ جیشِ محمد خود 2001 سے سلامتی کونسل کی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ یہ تنظیم پاکستان میں بھی ممنوعہ تنظیموں کی فہرست میں شامل ہے۔

سلامتی کونسل کی پابندیوں کی کمیٹی اتفاقِ رائے سے کام کرتی ہے اور اس کے ارکان کے پاس اعتراضات اٹھانے کے لیے 13 مارچ تک کا وقت ہے۔ سلامتی کونسل پہلے ہی پلوامہ حملے کی مذمت میں بیان جاری کر چکی ہے۔

اس سے قبل جب 2017 میں کمیٹی کے سامنے مسعود اظہر پر پابندی لگانے کی قرارداد پیش ہوئی تھی تو چینی وزارتِ خارجہ نے کہا تھا کہ کمیٹی کو غیرجانب دارانہ اصولوں پر کام کرنا چاہیے۔

تاہم اس بار امکان ہے کہ چین اس قرارداد کو ویٹو نہیں کرے گا۔ مبصرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ چین رائے شماری میں حصہ نہیں لے گا اور یوں یہ قرارداد منظور ہو جائے گی۔

چین پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا ہے

ایک طرف تو پاکستان چین کا پرانا ساتھی ہے اور وہ صدر شی جن پنگ کے ’ون بیلٹ ون روڈ‘ منصوبے کا اہم حصہ ہے، تو دوسری طرف چین کے انڈیا کے ساتھ بھی بڑے پیمانے پر معاشی مفادات وابستہ ہیں اور وہ نہیں چاہے گا کہ اس معاملے پر وہ کھلم کھلا بھارت کے مخالفت مول لے۔

اگر ایسا ہوا تو عین ممکن ہے چین امریکہ کے اور زیادہ قریب ہو جائے۔

اگر پاکستان اور بھارت میں کسی قسم کی جنگ ہوتی ہے یا کم از کم اونچے درجے کی کشیدگی برقرار رہتی ہے تو اس سے پاکستان میں چین کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری متاثر ہو سکتی ہے اور چین ہرگز ایسا نہیں چاہے گا۔

پاکستان کی فضائی حدود دو دن سے ہر قسم کی پروازوں کے لیے بند ہیں، جس سے وہ دنیا سے کٹ کر رہ گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا ملک کو  بےتحاشا معاشی نقصان ہو رہا ہے اور تحریکِ انصاف کی حکومت کی بین الاقوامی سرمایہ کاری لے کر آنے کی کوششوں کو دھچکا لگا ہے۔

اس صورتِ حال میں چین یہی چاہے گا کہ دونوں ملکوں کے درمیان رسہ کشی جلد سے جلد ختم ہو جائے اور اسے دونوں طرف سے کسی سفارتی نقصان کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا