کوہاٹ کی پہلی خاتون پروفیشنل فوٹوگرافر

رمل کے مطابق جب وہ شادیوں کی فوٹوگرافی کے لیے جاتیں تو کچھ تقریبات میں مرد انھیں ہراساں کرتے اور عجیب تبصرے کرتے لیکن انہیں اپنے والدین کا پورا اعتماد حاصل ہے جو ان کی ہمت باندھے رکھتا ہے۔

کوہاٹ کی رمل اعجاز اپنے علاقے کی پہلی پروفیشنل فوٹوگرافر ہیں۔

کوہاٹ یونیورسٹی سے صحافت میں بیچلرز کرنے والی 23 سالہ رمل نے پڑھائی کے دوران ہی شادیوں کی فوٹوگرافی شروع کر دی تھی۔

رمل بتاتی ہیں کہ یہ شوق انھیں اپنے والد سے ملا۔ ان کے والد خاندان کی تقریبات میں تصویریں کھینچتے تھے اور ان کے پاس ریل والے نت نئے کیمرے ہوتے تھے جن کو دیکھ کر رمل کو تجسس ہوتا تھا۔

تھوڑے عرصے بعد جب رمل کے بھائی نے فوٹوگرافی شروع کر دی تو انھوں نے بھی اپنا خواب پورا کرنے کی جستجو شروع کر دی۔

رمل کہتی ہیں کہ انھوں نے اپنے بھائی کے کیمرے سے فوٹوگرافی شروع کی اور اب ان کے پاس ان کا اپنا کیمرا ہے۔

رمل ڈھائی سال سے فوٹوگرافی کر رہی ہیں، اس دوران انھوں نے دیکھا کہ علاقے میں کوئی لڑکی یہ کام نہیں کر رہی۔ انھوں نے اس خلا کو پر کیا، جسے علاقے کے لوگوں نے بہت سراہا۔

وہاں کے قدامت پسند لوگوں کو یہ بات اچھی لگی کہ ان کے گھر کی عورتوں کی تصویریں اور ویڈیو ایک عورت ہی بنا رہی ہے اور اس کے پاس ان کا سارا ڈیٹا محفوظ ہے۔

ان ڈھائی سالوں میں رمل نے کئی تقریبات کی کوریج کی۔ کوہاٹ جیسے پس ماندہ علاقے میں ایک لڑکی ہونے کے ناتے رمل نے اپنے پروفیشنل سفر کے دوران کئی مسائل کا سامنا کیا۔

رمل کے مطابق جب وہ شادیوں کی فوٹوگرافی کے لیے جاتیں تو کچھ تقریبات میں مرد انھیں ہراساں کرتے اور عجیب تبصرے کرتے لیکن انہیں اپنے والدین کا پورا اعتماد حاصل ہے جو ان کی ہمت باندھے رکھتا ہے۔

رمل نے کے پی امپیکٹ چیلنج کے ذریعے 10 لاکھ روپے سے اپنا سٹوڈیو بنانا شروع کیا ہے اور ان کے والد بھی اس کام میں ان کا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔

رمل کہتی ہیں کہ اکثر والدہ ان کے ساتھ شوٹس پر جاتی ہیں اور ان کی مدد کرتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب وہ شوٹ سے واپس آتی ہیں تو ان کے والد پرجوش ہو کر ان سے پوچھتے ہیں کہ شوٹنگ کیسی رہی۔

رمل کو یہ بات بہت پسند ہے کہ والدین ان کے کام اور ترقی میں اتنی دلچسپی لیتے ہیں اور آگے بڑھنے میں ان کی مدد کر رہے ہیں۔ 

رمل کو صحافت کا بھی بہت شوق ہے۔ جب وہ شادیوں کی فوٹوگرافی نہیں کر رہی ہوتیں تو وہ خبریں اور کہانیاں ڈھونڈ کر ان کے بارے میں فری لانس رپورٹنگ، ویڈیوز اور فوٹو جرنلزم کرتی ہیں۔

آج کل رمل نسٹ یونیورسٹی سے ایم فل کر رہی ہیں۔ وہ اسلام آباد اور کوہاٹ کے درمیان نہ صرف اپنا کام کر رہی ہیں بلکہ پڑھائی اور گھر والوں کی ذمہ داریاں بھی نبھا رہی ہیں۔

رمل کہتی ہیں کہ کبھی کبھی ان کو کوہاٹ اور اسلام آباد میں سب اکیلے مینج کرنا مشکل لگتا ہے لیکن وہ ہار ماننے والوں میں سے نہیں۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ ایم فل ختم کرنے کے بعد وہ واپس کوہاٹ جانا پسند کریں گی۔ ان کو بڑے شہر میں نہیں رہنا۔

’میرا کوہاٹ سے ایک عجیب سا جذباتی لگاؤ ہے۔ مجھے وہاں کے لوگوں نے اتنا کچھ دیا، پیار دیا۔ آج اگر میں اپنی زندگی میں کچھ ہوں تو وہ کوہاٹ کی وجہ سے ہوں۔ میں کوہاٹ کبھی نہیں چھوڑنا چاہوں گی۔‘

جب رمل سے پوچھا گیا کہ وہ باقی لڑکیوں کو کیا پیغام دیں گی تو انھوں نے کہا کہ لڑکیوں کو آگے بڑھنے کے لیے زیادہ جدو جہد کرنی پڑتی ہے۔

’ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کو زیادہ آگے نہیں جانے دیا جاتا لیکن ان کو صحیح وقت کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ بس اپنی ضد پر قائم رہیں اور تھوڑی تھوڑی کوشش کرتے رہیں۔ ایک دن محنت رنگ ضرور لائے گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ابھرتے ستارے