’توروالی‘ اپنی مادری زبان کیسے بچا رہے ہیں؟

زبیر توروالی نے ضلع سوات کےعلاقے بحرین کے مختلف علاقوں میں چار سکول کھول رکھے ہیں جہاں کا نصاب انگریزی اور اردو سمیت مادری زبان ’توروالی‘ میں بھی پڑھایا جاتا ہے۔

خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کے علاقے بحرین سے تعلق رکھنے والے زبیر توروالی گذشتہ 15 سال سے خیبر پختونخوا کی معدوم ہو جانے والی زبانوں کو زندہ رکھنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

ان ہی زبانوں میں سے ایک توروالی زبان بھی ہے جو سوات کے بالائی علاقوں بحرین اور اس کی وادیوں میں بولی جاتی ہے۔ 

زبیر نے اس مقصد کے لیے بحرین کے مختلف علاقوں میں چار ایسے سکول کھولے ہیں جہاں کا نصاب انگریزی اور اردو سمیت مادری زبان ’توروالی‘ میں بھی پڑھایا جاتا ہے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ تقریباً 15 سال سے اپنی مادری زبان کو زندہ رکھنے کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔

زبیر نے بتایا کہ گلگت بلتستان اور بالائی خیبر پختونخوا میں 30 زبانیں بولی جاتی ہیں اور پشتو کے علاوہ باقی ساری زبانوں کو خطرہ ہے کیونکہ ان کے بولنے والے کم ہو رہے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ان کے سکول کے نصاب کو بین الاقوامی معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا گیا ہے، جہاں پہلے بچوں کو مادری زبان میں پڑھایا جاتا ہے اور بعد میں یہی نصاب انگریزی اور اردو میں پڑھایا جاتا ہے۔

زبیر کے مطابق وہ ترقی یافتہ زبانوں کی اہمیت سے انکار نہیں کرتے لیکن ان کی کوشش ہے کہ مادری زبان کو دیگر زبانوں کو سیکھنے کے لیے ایک پُل بنایا جائے تاکہ بچوں کو انہیں سیکھنے میں آسانی ہوں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا: ’ہمارے سکول کا نصاب یونیسکو کے معیار کو سامنے رکھ کر بنایا گیاہے، جو ’مادری زبان پر مبنی کثیر السانی سکول‘ (Mother Tongue multilingual School system) کی طرز پر ہے۔ ہم یہاں پر پرائمری تک تعلیم فراہم کرتے ہیں اور اب تک 1600 کے قریب بچے یہاں سے پڑھ کر دوسرے سکولوں میں جا چکے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’سکول سے باہر بھی ہم اس زبان کو زندہ رکھنے کے لیے کام کر رہے ہیں اور اس کے لیے ہم ’توروالی‘ زبان میں لکھی گئی نظمیں اور گانے دوسری زبانوں میں ترجمہ کر رہے ہیں جبکہ ہمارے ایک ساتھی نے اسی زبان کی ایک ڈکشنری بھی بنائی ہے۔

زبیر نے بتایا: ’جب تک ہماری تعلیم میں مادری زبان کو شامل نہیں کیا جاتا، بچوں کو پڑھنے اور تعلیم حاصل کرنے میں مشکلات ضرور ہوں گی۔ اگر ان زبانوں کو تعلیم کا حصہ نہیں بنایا گیا تو یہ زبانیں بھی ختم ہو جائیں گی۔‘

زبیر کے مطابق: ’ہماری مادری زبانوں میں مختلف ثقافتوں اور تہذیب سے جڑی بہت سی ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو ہمیں مادری زبان میں ہی مل سکتی ہیں اور اگر یہ زبانیں ختم ہوگئیں تو ہمارا کلچر اور تہذیب بھی ختم ہو جائے گی کیونکہ زبان اور کلچر کے درمیان بہت گہرا تعلق ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل