پاکستان اپنے سمندر کو نظرانداز کیوں کر رہا ہے؟

ایک تخمینے کے مطابق پاکستان اپنے سمندر کے کل وسائل کا صرف چار فیصد ہی استعمال کر رہا ہے، جب کہ بھارت اور بنگلہ دیش اس معاملے میں ہم سے کہیں آگے ہیں۔

پاکستان نے سمندر سے استفادے کی جانب کبھی بھی سنجیدہ  توجہ نہیں کی (فائل تصویر: اے ایف پی)

مطالعۂ پاکستان کی کتابوں میں بار بار اس بات کی تکرار ملتی ہے کہ پاکستان قدرتی اور جغرافیائی وسائل سے مالامال ہے لیکن انہی وسائل میں سے اہم ترین یعنی سمندر کو ہماری حکومتوں نے سوتیلا سمجھ کر اس سے ہمیشہ نظرانداز کر رکھا ہے۔ 

بطورِ قوم ہم نے زراعت پر انحصار کیے رکھا جس میں کوئی حرج بھی نہیں، لیکن ایک ہزار کلومیٹر طویل ساحلی پٹی کے وسائل سے بےجا بیگانگی برتنا کہاں کی عقل مندی ہے؟

اگر سمندری علوم سے متعلق سامنے آنے والے تحقیقی لٹریچر کو پڑھا جائے تو اس بات کی تکرار نظر آئے گی کہ پاکستان ’سمندر فراموشی‘ (Sea Blindness) کا شکار ہے۔ پاکستانی ریاست اور معاشی اداروں نے سمندر کو صرف بحری دفاع اور دقیانوسی طریقوں سے کی جانے والی ماہی گیری تک محدود جانا ہے جو کہ سراسر غلط فہمی ہے۔ 

سمندر انسانی تاریخ کا ہمیشہ سے اہم حصہ رہے ہیں اور مغرب نے مضبوط بحری بیڑوں کے طفیل ہی دنیا بھر پر حکمرانی کی۔ معاصر دنیا میں سمندر صرف عسکری قوت کے مظاہرے ہی کے لیے وقف نہیں ہیں بلکہ اب سمندر کی اصل اہمیت اس کے پانیوں میں پائے جانے والے ان گنت قدرتی وسائل ہیں اور اس کے سینے پہ تیرتے بحری جہاز ہیں جن کے سبب دنیا جہان کی تجارت ممکن ہو پاتی ہے۔

بین الاقوامی تجارت کا دارومدار سمندری راستوں پر ہی ہے۔ انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن (IMO) کے مطابق عالمی تجارت کا 90 فیصد حصہ بحری جہازوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اہم بحری راستوں کی معمولی بندش بھی عالمی تجارت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے کے لیے کافی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دنیا نے ہم سے بہت پہلے سمندر سے بھرپور استفادے کے لیے محنت شروع کر دی تھی۔ 1972 کا سٹاک ہوم ڈیکلریشن ہو یا 1992 کا ریو کنونشن، سب میں سمندری ذرائع پیداوار کی ترقی و ترویج کے منصوبوں پہ عمل کرنے کی بات کی گئی ہے۔ Blue Economy یا Ocean Economy کی طرف ترقی یافتہ اور بہت سے ترقی پذیر ممالک تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں جب کہ پاکستان ابھی تک اس دوڑ میں شامل ہی نہیں ہو سکا۔

پاکستان کو درپیش اقتصادی بحرانوں سے نجات دلانے کے لیے سمندری استفادے کی جانب کبھی بھی سنجیدہ  توجہ نہیں کی گئی۔

اسی طرح ہمارا میڈیا بھی سمندر کو در خور اعتنا نہیں سمجھتا۔ کیا ہمیں معلوم ہے کہ چند سال قبل کراچی کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشیانوگرافی کی کاوشوں سے پاکستان نے 50 ہزار مربع کلومیٹر کا وسیع سمندری علاقہ اپنے Exclusive Economic Zone میں کامیابی سے شامل کرایا ہے اور اب پاکستان کا مخصوص تجارتی خطہ دو لاکھ 40 ہزار مربع کلومیٹر سے بڑھ کے دو لاکھ 90 ہزار کلومیٹر ہو چکا ہے؟

اتنی اہم کامیابی کو کبھی مین سٹریم میڈیا میں جگہ نہیں ملی اور نہ ہی حکومتی سطح پہ کبھی ایسے کاموں کو پروموٹ کیا گیا ہے۔

اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک ’میری ٹائم سٹڈی فورم‘ کی ایک کیس سٹڈی میں اعداد و شمار کی بنیاد پہ بتایا گیا ہے کہ پاکستان کا سمندری ذخائر سے پیدا ہونے والی آمدن کا حجم ساڑھے سات ارب ڈالر سالانہ تک ہو سکتا ہے جو اس وقت محض 18.3 کروڑ ڈالر سالانہ ہے۔ پاکستان کی آبی مالیاتی پیداوار اس وقت بھارت اور بنگلہ دیش سے بہت کم ہے۔ بھارت سمندری معیشت سے چھ ارب ڈالر سالانہ اور بنگلہ دیش ساڑھے پانچ ارب ڈالر کما رہا ہے۔

بحری یا سمندری معیشت و تجارت ایک مستحکم اور مستقل معیشت کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔ ماہرینِ اقتصاد جی ڈی پی اور جی این پی کی طرح جی ایم پی (گروس میرین پراڈکٹ) کے ذریعے سمندری معاش کے حجم کو شمار میں لاتے ہیں۔ حکومتِ وقت  اگر اس سیکٹر کو پورے طور پر استفادے میں لائے تو بہت سے شعبوں کی ترقی کے ساتھ ساتھ ہزاروں افراد کے لیے روزگار کے مواقع ممکن بنائے جا سکتے ہیں۔

سمندر پاکستان کی 98 فیصد تجارت کا روٹ ہے اور بہت سے شعبے اس سے جڑے ہیں جن میں بندرگاہیں، ساحلی سیاحت، فشنگ، تیل و گیس کے ذخائر، شپنگ، شپ بلڈنگ اور شپ بریکنگ وغیرہ شامل ہیں۔

مندرجہ بالا شعبوں میں سے ہر ایک کا الگ سے بھی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ پاکستان کو ابھی ان شعبوں میں بہت زیادہ اور بہت مربوط کام کرنے کی اشد ضرورت ہے اور ہمارے پڑوسی ممالک ان شعبوں میں ہم سے زیادہ سرمایہ کاری اور مربوط کاوشوں میں لگے ہیں۔ پاکستان کے پاس بحری جہاز بنانے اور مرمت کرنے کے لیے صرف ایک شپ یارڈ ہے جب کہ بھارت میں 40 کے قریب اور بنگلہ دیش میں 25 کے لگ بھگ شپ یارڈ کام کر رہے ہیں۔

اسی طرح پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن کے پاس صرف 11 بحری جہاز ہیں جن کی تعداد بڑھا کہ مستقل آمدن کے ساتھ ساتھ  بہت سا زرِ مبادلہ باہر جانے سے بچایا جا سکتا ہے۔

ہمارے ہاں میری ٹائم سیکٹر کو انتظامی سطح پہ بھی اس قدر گنجلک بنا دیا گیا ہے کہ ایک ہی مسئلہ بہت سی وزارتوں اور اداروں کے مابین حل ہونے کے لیے سالہا سال منتظر رہتا ہے۔ اس ضمن میں اگر ایک ایسے ادارے کا قیام ممکن بنایا جائے جو سمندر سے متعلقہ تمام تجارتی، فنی، قانونی، دفاعی، سیاحی، سائنسی اور تحقیقی امور کے لیے تنہا ذمہ دار ہو تو بہت سا کام آسان ہو سکتا ہے۔

--------------

مصنف پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور انہوں نے سمندری قوانین میں سپیشلائزیشن کر رکھی ہے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ