تحریک انصاف: اتحادی جماعتوں سے رابطے بہتر کرنے کا فیصلہ

اجلاس میں مسلم لیگ (ق) کے رہنما اور پنجاب اسمبلی کے سپیکر چوہدری پرویز الہیٰ کے  وفاقی حکومت سے متعلق حالیہ بیانات پر بھی بحث کی گئی۔

میڈیا ذرائع سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ وزیراعظم عمران خان نے حکومتی اتحادیوں سے متعلق نئی اور پرانی مشاورتی کمیٹیوں کے اراکین سے بھی رپورٹس طلب کیں۔(فائل فوٹو: اے ایف پی)

تحریک انصاف حکومت نے سندھ، پنجاب اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والی اتحادی سیاسی جماعتوں کی مستقل حمایت کو یقینی بنانے کے لیے ان سے رابطے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ فیصلہ ہفتے کے روز اسلام آباد میں ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں کیا گیا۔

اجلاس کی صدارت وزیر اعظم عمران خان نے کی۔ جب کہ وفاقی وزرا کے علاوہ تحریک انصاف کے سینئیر رہنماوں اور پنجاب اور خیبر پختون خوا کے وزرائے اعلیٰ اور گورنرز نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔

 اجلاس کے شروع میں وزیر اعظم عمران خان کو تحریک انصاف حکومت کی اتحادی جماعتوں خصوصا مسلم لیگ قائد اعظم، متحدہ قومی موومنٹ۔ پاکستان (ایم کیو ایم۔پی)، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) سے متعلق بریفنگ دی گئی۔

بریفنگ میں اتحادی جماعتوں کی جانب سے حال ہی میں سامنے آنے والی شکایات، گلے شکوے اور تحفظات سے متعلق وزیر اعظم عمران خان کو آگاہ کیا گیا۔

مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم۔ پی کے علاوہ اجلاس میں بلوچستان عوامی پارٹی (باپ)، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) اور جمہوری وطن پارٹی سے متعلق گفتگو ہوئی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اجلاس کے شرکا نے  اتحادی جماعتوں سے تعلقات کو بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ اور اس سلسلے میں مختلف آپشنز پر غور کیا گیا۔

اجلاس میں مسلم لیگ (ق) کے رہنما اور پنجاب اسمبلی کے سپیکر چوہدری پرویز الٰہی کے  وفاقی حکومت سے متعلق حالیہ بیانات پر بھی بحث کی گئی۔

جب کہ متحدہ قومی موومنٹ۔پاکستان (ایم کیو ایم۔پی) کے رہنما خالد مقبول صدیقی کی بحیثیت وفاقی وزیر استعفے سے پیدا ہونے والی صورت حال پر بھی بحث ہوئی۔

اسی طرح اجلاس میں ایم کیو ایم کی جانب سے وفاقی کابینہ میں اس کا شئیر بڑھانے سے متعلق اطلاعات پر بھی بات کی گئی اور اس سلسلے میں مختلف امکانات زیر غور آئے۔

میڈیا ذرائع سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ وزیراعظم عمران خان نے حکومتی اتحادیوں سے متعلق نئی اور پرانی مشاورتی کمیٹیوں کے اراکین سے بھی رپورٹس طلب کیں۔

کمیٹیوں کے اراکین نے اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں سے اب تک ہونے والے رابطوں اور ان کی شکایات اور تحفظات سے متعلق اجلاس کو مطلع کیا، اجلاس کے شرکا میں اتحادیوں کے تحفظات دور کرنے سے متعلق اتفاق دیکھنے میں آیا۔

اجلاس میں موجود تمام وفاقی و صوبائی حکومتی اہلکاروں، تحریک انصاف کے رہنماؤں اور وزیر اعظم عمران خان نے اتحادی جماعتوں سے کیے گئے وعدے پورا کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

اتحادی جماعتوں سے متعلق بحث کے اختتام پر وزیر اعظم عمران خان نے مشاورتی کمیٹیوں کی فوری طور پر اتحادیوں سے  نئے سرے سے رابطے قائم کرنے اور انہیں انگیج کرنے کی ہدایت کی۔

وزیر اعظم نے اتحادی جماعتوں کے ساتھ وفاق اور صوبوں میں حکومتیں بننے کے وقت کیے گئے وعدے پورے کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔  اور اس سلسلے میں بھی مشاورتی کمیٹیوں کو ہدایات جاری کیں۔

اجلاس ختم ہونے کے چند گھٹوں بعد وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم پاکستان حکومت سے علیحدگی اختیار نہیں کریں گی۔

اتحادی جماعتیں ناخوش کیوں؟

تحریک انصاف حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کے درمیان حالیہ تلخیوں کا سلسلہ تقریبا ایک مہنیہ قبل شروع ہواجب پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی چئیرپرسن بلاول بھٹو زرداری نے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کو  وفاقی حکومت سے راہیں جدا کر کے سندھ حکومت میں شمولیت کی دعوت دی تھی۔

بلاول بھٹو نے ایم کیو ایم پاکستان کو سندھ حکومت میں ان کی مرضی کی وزارتیں دینے کی دعوت بھی دی۔

پیپلز پارٹی کی اس پیشکش کے محض دو ہفتوں بعد ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما خالد مقبول صدیقی نے تحریک انصاف حکومت سے علیحدگی کا اعلان کر تے ہوئے بحیثیت وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی استعفیٰ دے دیا۔

استعفیٰ کے باوجود خالد مقبول صدیقی نے تحریک انصاف حکومت کی حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔

اگرچہ خالد مقبول صدیقی نے اپنے استعفی کی وجہ کراچی کے مسائل کا حل نہ ہونا بتایا تاہم بعض رپورٹس کے مطابق وہ تانیہ ادریس کی بحیثیت ڈیجیٹل ویژن پاکستان تعیناتی سے نالاں تھے۔

اس کے بعد تو جیسے حکومتی اتحادیوں کو موقع ہاتھ آگیا، ایک کے بعد ایک اتحادی جماعت کی طرف سے گلے شکوے آنا شروع ہو گئے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کو گلہ تھا کہ ان سے طے کیے گئے چھ نکات میں سے کسی پر بھی عمل نہیں ہوا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم  نے بھی اپنے وزیروں کے اختیارات میں کمی اور اراکین اسمبلیوں کو ترقیاتی فنڈز نہ ملنے کا واویلا کیا۔

مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری پرویز الٰہی نے دو روز قبل وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے نئی مشاورتی کمیٹیاں بنائے جانے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’حکومت کو اپنے اتحادیوں کے ساتھ سوتن والا سلوک نہیں کرنا چاہئیے۔‘

یاد رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے دو روز قبل اتحادیوں سے بات چیت کے لیے تین نئی کمیٹیاں بنائی تھیں۔

سابق وزیر خزانہ اسد عمر کی سربراہی میں گورنر سندھ عمران اسماعیل، فردوس شمیم نقوی اور حلیم عادل شیخ پر مشتمل کمیٹی ایم کیو ایم پاکستان اور جی ڈی اے سے رابطے کرے گی۔

گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کی سربراہی میں وزیر اعلیٰ چوہدری عثمان بزدار اور وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود پر مشتمل کمیٹی مسلم لیگ ق سے بات چیت کرے گی۔

اسی طرح وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں قاسم سوری اور میر خان محمد جمالی پر مشتمل کمیٹی باپ، بی این پی اور جے ڈبلیو پی کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کرے گی۔

سندھ کے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کی جانب سے بھی حکومت خصوصا تحریک انصاف کے وزیروں سے متعلق شکایات سننے کو ملیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان