کرونا وائرس کا خدشہ: اسلام آباد کے چینی ریستوران بند ہونے لگے

چین میں کرونا کی وبا پھیلنے کے بعد اسلام آباد کے باسیوں نے اس ڈر سے چینی ریستورانوں کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے کہیں وہ وائرس میں مبتلا نہ ہو جائیں۔

چین میں اب تک کرونا وائرس سے 30 ہزار سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں(اے ایف پی)

’کاروبار کئی دنوں سے بند ہے۔ مجھے نہیں معلوم گھر کا خرچہ کیسے چلے گا؟ اور اس جگہ کا کرایہ کہاں سے آئے گا؟ لگتا ہے کسی سے قرض ہی اٹھانا پڑے گا۔‘

یہ کہنا تھا اسلام آباد کے سیکٹر آئی ٹین  میں واقع چینی ریستوران کی مالکن تیان ژاؤ میئ کا جنہوں نے چین میں مہلک کرونا وائرس کے پھیلنے کی خبروں کے باعث اپنا کاروبار بند کر دیا ہے۔

شمال وسطی چین کے خود مختار علاقے ننگزیا سے تعلق رکھنے والی تیان ژاؤ میئ اور ان کا چینی شوہر لقمان گذشتہ کئی برس سے اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ پاکستان میں مقیم ہیں۔

چینی خاندان اپنے تین کمروں کے رہائشی فلیٹ میں ریستوران چلاتے ہیں جہاں صرف چینی کھانے پیش کیے جاتے ہیں۔ ان کے ریستوران کا نام بھی چائینیز ریسٹورنٹ ہے۔

تیان ژاؤ میئ فلیٹ کا 60 ہزار روپے ماہوار کرایہ ادا کرتی ہیں۔ جبکہ ان کی چھ سالہ بڑی بیٹی سکول بھی جاتی ہیں۔ ان کی دوسری بیٹی کی عمر 11 ماہ ہے۔

تیان ژاؤ میئ کا کہنا تھا: ’ہم واقعی پریشان ہیں کہ بند کاروبار کے ساتھ یہ سارے خرچے کیسے پورے ہوں گے۔‘

چین میں پھیلنے والے مہلک کرونا وائرس سے متعلق خبروں نے دنیا بھر میں خوف و ہراس کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔

مہلک کرونا وائرس کا پہلا شکار گذشتہ سال دسمبر میں مرکزی چین کے شہر ووہان میں منظر عام پر آیا۔ اس کے بعد یہ وائرس جیسے جنگل کی آگ کی طرح پھیلتا چلا گیا۔ اب تک چین میں 27 ہزار افراد اس مہلک وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں جبکہ ہلاکتیں ساڑھے پانچ سو سے تجاوز کر گئی ہیں۔ 

تیان شیاؤ میئ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہم نے اپنا کاروبار اس لیے بھی بند کیا کہ کہیں ہم یا ہمارا ریستوران کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ نہ بن جائیں۔‘

تاہم انہوں نے کہا کہ چین اور دنیا میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی خبروں کے بعد ان کے ریستوران میں آنے والے گاہکوں کی تعداد بھی کم ہو گئی تھی: ’کم گاہکوں کی وجہ سے ہم ویسے بھی نقصان اٹھا رہے تھے، اس لیے میں اور میرے شوہر نے آپس میں مشورے کے بعد ریستوران بند کرنے کا فیصلہ کیا۔‘

سیکٹر آئی دس کے رہائشی محمد حسیب کم از کم مہینے میں ایک مرتبہ چائینیز ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا کرتے تھے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا: ’میں نے اب وہاں جانا بند کر دیا ہے۔ اس لیے کہ ادھر بہت سارے چینی آتے تھے۔ اور وہاں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ موجود تھا۔‘

اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی میں بڑی تعداد میں چینی طالب علم تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

ان طلبہ کی بڑی تعداد یونیورسٹی کے قریبی علاقوں آئی ٹین، نائن اور ایلوین، اور ایچ نائن، ٹیں اور الیون سیکٹروں میں سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں۔

جن سیکٹروں میں چینی زیادہ تعداد میں رہتے ہیں وہاں بعض چینی باشندوں نے اپنے گھروں میں ریستوران کھول رکھے ہیں، جہاں صرف چینی کھانے پیش کیے جاتے ہیں اور گاہکوں میں بھی صرف چینی طالب علم ہی شامل ہوتے ہیں۔

ایسے ریستورانوں کی بڑی تعداد کرونا وائرس کے پھیلنے کی اطلاعات کے بعد بند ہو گئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایسے ہی ایک ریستوران کی مالکن نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’اب ہمارے گاہک اس لیے نہیں آتے کہ وہ دوسرے لوگوں خصوصاً چینیوں سے گھلنا ملنا نہیں چاہتے۔ اسلام آباد میں مقیم چینی باشندے جانتے ہیں اس طرح کے اجتماعات میں کرونا وائرس کے پھیلنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ اور وہ پاکستان میں اس بیماری سے متاثر نہیں ہونا چاہتے۔‘

چینی پاکستان میں مقیم غیر ملکیوں کی اہم کمیونٹیز میں سے ایک ہے اور سی پیک شروع ہونے کے بعد سے ان کی تعداد میں بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

سفارتی ذرائع کے مطابق اسلام آباد میں دس ہزار سے زیادہ چینی باشندے آباد ہیں، جبکہ پورے پاکستان میں ان کی تعداد 35 ہزار سے زیادہ ہے۔ تاہم غیر مصدقہ اعدادوشمار کے مطابق سال 2018 میں چینی باشندوں کی تعداد 60 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔

زیادہ تر چینی باشندے سی پیک کے تحت مختلف پراجیکٹس سے منسلک ہیں، جبکہ ایک بڑی تعداد تعمیرات، توانائی اور کان کنی کے شعبوں میں کام کرنے والی چینی کمپنیوں کے ساتھ بھی منسلک ہے۔

چھوٹے چھوٹے چینی ریستورانوں کے علاوہ اسلام آباد میں بڑے ریستوران بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔

چینی باشندوں کے علاوہ یہ ریستوران پاکستانی شہری بھی چلاتے ہیں۔ بعض ریستوران پاکستانی اور چینی باشندے شراکت داری پر بھی چلا رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر ریستورانوں میں پاکستانیوں کے علاوہ چینی باشندے بھی کام کرتے ہیں۔

مہلک کرونا وائرس کے پھیلنے کے بعد سے ایسے ریستورانوں کے کاروبار میں بھی مندی دیکھنے میں آئی ہے۔

وفاقی دارالحکومت کے سب سے بڑے تجارتی مرکز بلیو ایریا میں واقع ایک چینی ریستوران کے پاکستانی منیجر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کرونا وائرس کے پھیلاو کے بعد سے ہمارا کاروبار کافی زیادہ خراب ہوا ہے۔‘

اپنا اور ان کے ریستوران کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے کہا کہ ’پہلے ہمارے پاس اڑھائی سے تین سو گاہک روزانہ آتے تھے۔ اب یہ تعداد کم ہو کر ڈیڑھ سے دو سو رہ گئی ہے۔‘

اسلام آباد کے ایف ایٹ مرکز میں واقع ایک دوسرے چینی ریستوران کے اہلکار اکرام اللہ (فرضی نام) کا کہنا تھا: ہمارے ہاں تو کوئی چینی نہیں ہے نہ چینی گاہک آتے ہیں۔ پھر بھی کاروبار میں کمی آ گئی ہے۔

وجہ جو کچھ بھی ہو مہلک کرونا وائرس کے پھیلاؤ اور اس سے منسلک سنگین صورت حال کے باعث اکثر لوگوں نے چینی ریستورانوں کا رخ کرنا بند کر دیا ہے جس سے ان کے کاروبار پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے انجینئیر فضل حسین (فرضی نام) نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا، ’ہمیں نہیں معلوم کہ ان کا چینی سٹاف کب چین سے ہو کر آیا ہے اور ان میں سے کون کون کرونا وائرس لیے پھر رہا ہے۔‘

چینی کھانوں کے دیوانے فضل حسین نے سوا مزید کہا کہ ’ہو سکتا ہے چینی ریستورانوں میں کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ دوسرا سامان بھی چین سے آیا ہو۔ اور اس میں کرونا وائرس موجود ہو، میرا نہیں خیال کہ ایسی صورت حال میں کسی قسم کا رسک لینا کوئی عقل مندی ہو سکتی ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان