شیخ زید میں جگر کی پیوند کاری بند: ’غلط دوا آگئی تو ہمارا کیا قصور؟‘

لاہور کے شیخ زید ہسپتال میں لیور ٹرانسپلانٹ کے سربراہ ڈاکٹر طارق بنگش کا کہنا تھا کہ ’حالیہ اموات میں ہماری غلطی نہیں ہے۔ ہمارا مریض چل کر جاتا ہے، کھا پی رہا ہے، لیکن اگر اسے کوئی ایسی دوائی لگی ہو جو اس کے اعضا کو خراب کر رہی ہو توہمارا کیا قصور ہے؟‘

ڈاکٹرو ں کے مطابقدنیا بھر میں ایسا ہوتا ہے کہ جس مریض کے جگر کی پیوند کاری ہوتی ہے اس کے مرنے کا چانس ہوتا ہے مگر جگر عطیہ کرنے والے کے مرنے کی شرح اعشاریہ ایک سے بھی کم ہے۔‘ (پکسابے)

رواں برس 14 سے 30 جنوری کے دوران تین مریضوں کی ہلاکت کے بعد لاہور کے شیخ زید ہسپتال میں 2011 سے جاری جگر کی پیوند کاری کا عمل فی الحال روک دیا گیا ہے۔

ہلاک شدگان میں سے دو افراد جگر کی پیوند کاری کے مریض تھے جب کہ ان میں سے ایک جگر عطیہ کرنے والے 22 سالہ عمر باجوہ تھے۔

پنجاب ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر ویجیلنس عدنان بھٹی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہمارے ویجیلنس ڈیپارٹمنٹ کے ایس او پی کے مطابق جب بھی مریض یا ڈونر اپنے رجسٹرڈ ہسپتال کے ذریعے خود ہمارے پاس آتے ہیں تو ہم انہیں اس آپریشن کے لیے ایک اجازت نامہ دیتے ہیں۔ جس ہسپتال میں یہ آپریشن ہونا ہوتا ہے وہاں کی انتظامیہ ہمیں مریض کے آپریشن کی تاریخ اور وقت بتاتی ہے جس کے بعد ہماری ویجیلنس ٹیم وہاں پہنچتی ہے اور جائزہ لیتی ہے کہ کیا یہ وہی مریض اور ڈونر ہیں جو ہم سے اجازت لے کر گئے تھے۔‘ 

 عدنان بھٹی نے یہ بھی بتایا کہ پنجاب ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی کے ویجیلنس ڈپارٹمنٹ کے انفارمرز بھی ہر ہسپتال میں موجود ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’شیخ زید ہسپتال میں جگر کی پیوندکاری کے دوران مرنے والے دومریض اورایک جگر عطیہ کرنے والے کی موت کی خبر ہمیں ہسپتال انتظامیہ نے نہیں دی بلکہ وہاں موجود ہمارے انفارمر نے دی، جس کے فوری بعد ہم وہاں پہنچ گئے اور مرنے والے عارف حسین، نسیم بی بی اور انہیں جگر عطیہ کرنے والے ان کے بیٹے عمر باجوہ کا میڈیکل ریکارڈ اور فائلز اپنے قبضے میں لے لیے۔ جب تک انکوائری کی رپورٹ نہیں آجاتی اس وقت تک کے لیے ہم نے لیور ٹرانسلانٹ یونٹ کو سیل کرکے یہاں جگر کی پیوندکاری کے آپریشن پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔‘

ڈائریکٹر ویجیلنس کے مطابق: ’ڈی جی پنجاب ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی نے ایک چھ رکنی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی ہے، جس نے چار روز میں اپنی رپورٹ جمع کروانی تھی جب کہ شیخ زید ہسپتال کی انتظامیہ نے اندرونی طور پر ایک تین رکنی کمیٹی بنائی جس نے ہمیں جمعے کے روز رپورٹ جمع کروانی تھی، مگر اب تک ہمیں ہسپتال انتظامیہ کی طرف سے کوئی رپورٹ موصول نہیں ہوئی، اب ہم نے انہیں 24 گھنٹے کا مزید وقت دیا ہے جس کے بعد ہم اپنی تحقیقات اور ہسپتال کی جانب سے کی گئی تحقیقات کو دیکھ کر کسی نتیجے پر پہنچیں گے۔‘

عدنان بھٹی نے انتہائی افسوس سے کہا: ’ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ایک 22 سال کا لڑکا عمر باجوہ جو میرے پاس خود چل کر آیا اور جو اپنی والدہ کو اپنا آدھا جگر عطیہ کر رہا تھا، وہ کیوں جان سے چلا گیا؟ اس کی وجہ جاننا بہت ضروری ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’دنیا بھر میں ایسا ہوتا ہے کہ جس مریض کے جگر کی پیوند کاری ہوتی ہے، اس کے مرنے کا چانس ہوتا ہے مگر جگر عطیہ کرنے والے کے مرنے کی شرح اعشاریہ ایک سے بھی کم ہے۔ پنجاب ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی 2017 میں بنی جس کے بعد اب تک دو ڈونر شیخ زید ہسپتال میں جگر عطیہ کرنے کے دوران جان سے جاچکے ہیں۔‘

عدنان بھٹی نے مزید بتایا کہ یہاں ایک ہی سرجیکل ٹیم ہے جس میں ڈاکٹر طارق بنگش اور ڈاکٹر عامر لطیف شامل ہیں جو نجی طور پر بھی پریکٹس کر رہے تھے۔ پہلے وہ بحریہ آرچرڈ کے ایک ہسپتال میں بھی کام کرتے رہے جب کہ اس وقت حمید لطیف میں پرائیویٹ پریکٹس کرتے ہیں۔

دوسری جانب شیخ زید ہسپتال کے لیور ٹرانسپلانٹ یونٹ کے سربراہ ڈاکٹر طارق بنگش نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ صرف جگر کی پیوندکاری کے مریض نہیں بلکہ ہسپتال کے 25 سے 26 مریض ہیں جنہیں مختلف بیماریاں تھیں، جن کو انیستھیزیا (بے ہوشی) کی ایک دوائی دی گئی اور اس کے بعد یہ ردعمل ہوا۔ تب ہسپتال انتظامیہ نے چار سے پانچ دوائیوں کو شارٹ لسٹ بھی کر دیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ہسپتال میں لیور ٹرانسپلانٹ کے لیے سٹیٹ آف دی آرٹ سہولیات ہسپتال میں موجود ہیں نیز یہ کہ اس معاملے کے حوالے سے منفی رپورٹنگ کی جارہی ہے۔

انہوں نے دوران گفتگو بتایا کہ ’ہسپتال کے اندر اور باہر ایسی طاقتیں موجود ہیں جو اس پروگرام کے خلاف ہیں اور یہ چاہتی ہیں کہ مریض پرائیویٹ ہسپتالوں میں جا کر لاکھوں روپے دے کر اپنا علاج کروائیں۔ ہم بحریہ ٹاؤن والے ہسپتال میں جگر کی پیوند کاری کرتے تھے مگر وہ بھی ایک سال سے بند ہو چکی ہے، ہم کسی دوسرے نجی ہسپتال میں کام نہیں کرتے۔ ہم اب تک بحریہ ٹاؤن والے ہسپتال اور شیخ زید کو ملا کر پانچ سو کے قریب جگر کی پیوند کاریاں کر چکے ہیں۔ ہم نے بحریہ ٹاؤن کے نجی ہسپتال میں اس لیے آپریشن شروع کیے تھے کیوں کہ شیخ زید ہسپتال میں نئے آپریشن تھیٹر اور آئی سی یو بن رہے تھے جس میں چھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ لگا۔ جو لوگ نجی ہسپتال کا خرچہ اٹھا سکتے تھے ان کی پیوند کاری بحریہ ٹاؤن کے ہسپتال میں کی گئی اور یہ سلسلہ ایک سال تک جاری رہا۔ اس کے بعد جب شیخ زید میں  تعمیراتی کام مکمل ہوا تو ہم واپس آ گئے، یہاں کام اتنا زیادہ تھا کہ ہم نجی پریکٹس کر ہی نہیں سکتے تھے۔‘

ڈاکٹر طارق بنگش نے بتایا کہ ’جو لوگ نجی ہسپتال نہہیں جا سکتے تھے، انہیں ہم نے ادویات دیں اور اس طرح انتظار کروایا۔ جن کا کیس زیادہ سیریس تھا ان کے حوالے سے ہم حکومت کو بتا دیتے تھے جن میں سے کچھ کو حکومت نے شفا ہسپتال بھیجا اور کچھ کوعلاج کے لیے ترکی بھیج دیا۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’پیوند کاری کے دوران جان چلے جانے کا قوی امکان ہوتا ہے کیوں کہ اس میں سرجری ہے، ادویات ہیں، آپریشن کے بعد کی دیکھ بھال وغیرہ شامل ہے اور اس میں اگر جسمانی طور پر مریض مضبوط نہیں ہے تو اس کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ ہاں البتہ میں اس بات سے متفق ہوں کہ جگر عطیہ کرنے والے کی موت نہیں ہونی چاہیے اور اس کے چانسز بہت کم ہوتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت شیخ زید ہسپتال میں ہر قسم کے میجر آپریشنز بند کیے جا چکے ہیں کیوں کہ ایک ایسی دوا آ گئی ہے جو انیستھیزیا کی ہے اور جس مریض کو بھی یہ دی گئی اس کی سرجری کے اگلے پانچ چھ روز میں اس کے جگر کے انزائمز بہت تیزی سے بڑھ جاتے ہیں۔ جگر کی پیوند کاری جیسا آپریشن جو دس سے چودہ گھنٹے طویل ہوتا ہے، اس میں یہ دوا زیادہ دی جاتی ہے، وہ مریض پر زیادہ اثر انداز ہو رہی ہے اور مریض اسے برداشت نہیں کر پاتے۔‘

انہوں نے بتایا: ’ہمارے پاس شیخ زید میں دو اور ڈونرز بھی تھے جن کی حالت غیر ہوئی تھی مگر ہم نے انہیں بروقت انہیں بچا لیا۔ ان میں سے ایک ہسپتال سے جاچکے ہیں جب کہ دوسرے ایک دو روزمیں چلے جائیں گے۔‘

ڈاکٹر طارق بنگش کا کہنا تھا کہ ’ہم نے بڑی محنت سے اس یونٹ کو بنایا تھا مگر ہسپتال کی اپنی انتظامیہ اس یونٹ کے پیچھے تب سے پڑی ہے جب سے یہ بنا ہے۔ ہم یہاں ٹریننگ پروگرامز شروع کرنے والے تھے جو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز سے منظور ہو چکے تھے۔ ہمارا مقصد تھا کہ زیادہ سے زیادہ نوجون ڈاکٹروں کو اس شعبے میں لائیں مگر اب ہم خود مایوس ہو چکے ہیں۔ ہم لوگ تو باہر کی نوکریاں چھوڑ کر یہاں آئے تھے، پورا سسٹم بنایا، پیوند کاری کا یونٹ کامیابی سے چلایا، مگر اب حکومت اور ہسپتال انتظامیہ کا یہ رویہ ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ان اموات میں ہماری یا ہماری جانب سے کیے گئے آپریشنز میں کوئی غلطی نہیں ہے۔ ہمارا مریض چل کر جاتا ہے، باتیں کر رہا ہے، کھا پی رہا ہے لیکن اگر اسے کوئی ایسی دوائی لگی ہو جو اس کے اعضا کو خراب کر رہی ہو تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے؟‘

ڈاکٹر بنگش نے مزید بتایا کہ ’اس وقت ہسپتال میں بچہ وارڈ کے چار مریض، جنرل سرجری کے پانچ، یورولوجی کے پانچ اور ای این ٹی کے دو مریضوں کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے اور ان کی حالتیں بھی غیر ہیں۔‘

دوران گفتگو ڈاکٹر طارق بنگش نے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی مثال دی، جہاں چند برس پہلے سو کے قریب مریض ایک دوائی کے ردعمل سے جان کی بازی ہار گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہاں بھی دی جانے والی دوائی سالوں سے دی جارہی تھی مگر ایک بیچ ایسا آیا جس میں کسی اور دوائی کے لوازمات شامل ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہاں بھی شاید کچھ ایسا ہی ہوا ہے کہ انیستھیزیا کی دوائی کا غلط بیچ ہسپتال میں آیا ہے مگر یہ چیک کرنا ہسپتال کا کام ہے، اس کے لیے آپ صرف لیور ٹرانسپلانٹ یونٹ پر الزام نہیں لگا سکتے۔‘

اس سے قبل جنوری 2018 میں بھی شیخ زید ہسپتال کے اسی جگر کی پیوند کاری کے شعبے کو عارضی طور پر بند کیا گیا تھا کیوں کہ تب بھی عطیہ دینے والا ایک مریض آپریشن کے دوران چل بسا تھا۔

اس سارے معاملے کے حوالے سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے ہسپتال انتظامیہ سے رابطہ کیا تو شیخ زید ہسپتال کی ترجمان فرح کھگہ نے کہا کہ ’ہسپتال اس بارے میں تب تک بات نہیں کر سکتا جب تک ہسپتال اور پنجاب ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کا نتیجہ نہیں آجاتا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت