’لال مسجد کا محاصرہ، کسی کو عمارت میں آنے جانے کی اجازت نہیں‘

لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ دارالحکومت کی انتظامیہ نے گذشتہ چار روز سے لال مسجد کا محاصرہ کر رکھا ہے اور کسی کو مسجد کے اندر یا باہر جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی، جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ صرف مسجد میں داخلے کی اجازت نہیں۔

اسلام آباد میں واقع لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ دارالحکومت کی انتظامیہ نے گذشتہ چار روز سے لال مسجد کا محاصرہ کر رکھا ہے اور کسی کو مسجد کے اندر یا باہر جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی، جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ مسجد سے باہر آنے پر کوئی پابندی نہیں صرف داخلے کی اجازت نہیں۔

اطلاعات کے مطابق مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز گذشتہ دو ہفتوں سے مسجد میں موجود ہیں اور اس دوران جمعے کی نماز بھی پڑھا چکے ہیں۔

سال 2007 میں لال مسجد اور اس سے منسلک جامعہ حفصہ کے طلبہ کے پرتشدد احتجاج کے بعد یہاں فوجی کارروائی کی گئی تھی، جس کے نتیجے میں 102 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔

ہلاک ہونے والوں میں ایس ایس جی گروپ اور رینجرز کے 11 اہلکار اور مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کے بھائی غازی عبدالرشید بھی شامل تھے۔

اس واقع کے بعد حکومت نے لال مسجد اور اس سے متصل عمارتوں کو اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔

سپریم کورٹ کے حکم پر جامعہ حفصہ کی تعمیر کے لیے 2012 میں اسلام آباد کے سیکٹر ایچ الیون میں پلاٹ الاٹ کیا گیا تھا۔ جہاں مسجد اور مدرسے کی تعمیر بھی شروع کر دی گئی ہے۔

تاہم ایچ الیون میں واقع جامعہ حفصہ اور متصل عمارتیں انتظامیہ نے سیل کر رکھی ہیں۔ جامعہ حفصہ سے تعلق رکھنے والی تقریباً ایک سو طالبات جمعرات کی رات لال مسجد میں داخل ہو گئیں، جس کے بعد اسلام آباد انتظامیہ نے لال مسجد کا محاصرہ کر لیا۔

حکومتی تحویل میں آنے کے بعد لال مسجد کا خطیب اسلام آباد انتظامیہ تعینات کرتی رہی ہے۔

تاہم دو ماہ قبل مولانا عامر صدیقی کے تبادلے کے بعد سے نئے خطیب کی تعیناتی عمل میں نہیں لائی گئی۔ 

اسلام آباد انتظامیہ کے مطابق اسی موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مولانا عبدالعزیز مسجد میں داخل ہوئے اور اب وہاں امامت اور خطابت کر رہے ہیں۔

اسلام آباد کی انتظامیہ نے اس سلسلے میں مولانا عبدالعزیز سے مذاکرات بھی کیے جو ابھی تک بے نتیجہ ثابت ہو رہے ہیں۔ اس صورت حال میں انتظامیہ نے لال مسجد کے گرد خار دار تارے بچھا کر اس کو محصور کر دیا ہے۔ مسجد کے مرکزی گیٹ کے سامنے قناتیں لگا کر راستہ بند کر دیا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ اُمِ حسان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ مسجد کے اندر تقریباً تین سو طالبات موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کھانے پینے کا سامان اور دوائیاں بھی مسجد میں لے جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔

اُمِ حسّان نے مزید کہا کہ مسجد میں موجود ’بعض بچیاں سردی کے باعث بیمار ہیں اور انہیں دواؤں کی اشد ضرورت ہے۔‘

اسی طرح انہوں نے بتایا کہ ایک بچی کے پاؤں میں چوٹ آئی ہے اور زخم خراب ہو رہا ہے۔

مسجد کے بند ہونے کے باعث پانچ وقت کی نماز عمارت کے سامنے سڑک پر ادا کی جا رہی ہے۔

اُمِ حسّان نے کہا کہ ایچ الیون کے مدرسے کو بھی اسی طرح محصور کیا گیا ہے اور وہاں بھی کئی ایک بچیاں عمارت کے اندر بند ہیں۔

لال مسجد سے منسلک سوات سے تعلق رکھنے والے ایک استاد مولانا عبدالرحیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’انتظامیہ دراصل ایچ الیون میں واقع جامعہ کی عمارت پر قبضہ کرنا چاہتی ہے اور لال مسجد کو بھی یہاں سے ہٹانا چاہتی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ اس مقصد کے لیے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی انتظامیہ پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔

لال مسجد کے باہر ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکاروں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کھانے پینے کی اشیا اندر لے جانے پر کوئی پابندی نہیں ہے، جبکہ مسجد کے اندر سے کوئی بھی باہر جا سکتا ہے۔ تاہم اندر جانے کی کسی کو اجازت نہیں ہے۔

نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر پولیس اہلکار نے بتایا کہ پہلے دو دن نماز کے لیے لوگوں کو اندر جانے کی اجازت دی گئی تھی۔

عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ محاصرے کے پہلے دو روز نمازیوں کو قومی شناختی کارڈ دکھا کر اندر جانے کی اجازت دی جاتی رہی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان