ہیئر ٹرانسپلانٹ: جعلی ڈاکٹروں سے بال کیسے بچائیں؟

مہنگا اور مشکل عمل ہونے کے باوجود پاکستان کے مردوں میں ہیئر ٹرانسپلانٹ کا رجحان بڑھ رہا ہے، لیکن اس عمل کے دوران انہیں کیا احتیاط کرنا ضروری ہے۔

اکثر مرد بال جھڑنے کی وجہ سے ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں (پکسابے)

ایک شخص اپنے دوست سے بہت عرصے بعد ملا تو دوست نے حیران ہو کر پوچھا، سنا ہے ’ڈاکٹر بن گئے ہو‘۔ انھوں نے جواب دیا جی، بالکل ایسا ہی ہے۔

لیکن کیسے؟ پہلے دوست نے پوچھا۔ اس شخص نے جواب دیا کہ وہ ایک ہسپتال کے باہر امرود بیچا کرتے تھے اور اس دوران ہسپتال آتے جاتے مریضوں کو دیکھتے، جن میں کچھ مردہ حالت میں واپس لے جائے جاتے تھے۔ ’اس طرح مجھے اندازہ ہوا کہ ڈاکٹر بننا کوئی اتنا مشکل کام نہیں، لہذا میں بھی ڈاکٹر بن گیا۔‘

یہی حال بشیر اللہ کا بھی تھا۔ وہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے اور ان کے پاس کوئی نوکری بھی نہیں تھی، لہذا انھوں نے پشاور میں اپنے ایک رشتہ دار ڈاکٹر سے، جو ایک ہیئر ٹرانسپلانٹ کلینک چلا رہے تھے، نوکری کی درخواست کی۔ ڈاکٹر صاحب نے درخواست قبول کرتے ہوئے بشیر اللہ کو آفس بوائے کے طور پر رکھ لیا۔

بشیر اللہ روزانہ مریضوں کو آتے جاتے اور سرجری کے عمل سے گزرتے دیکھتے۔ ساتھ ہی ڈاکٹر کی باتیں سنتے کہ وہ سرجری کروانے والوں کو کیا ہدایات دیتے ہیں۔

ٹھیک تین سال بعد بشیر کو محسوس ہوا کہ اب ان کو اپنا کلینک کھول لینا چاہیے، لہذا انھوں نے بنوں میں کوہاٹ روڈ پر واقع فقیر پلازہ میں کچھ عرصہ پہلے ’کلینک‘ کھولا، جہاں وہ دھڑا دھڑ مریضوں کے بالوں میں پیوندکاری کرنے لگے۔

تاہم یہ ’کلینک‘ زیادہ دیر نہ چل سکا اور 11 فروری کو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے چھاپہ مار کر بشیراللہ اور ان کے ساتھ  کام کرنے والے فرمان اللہ اور محمد ساقی کو گرفتار کر کے ناصرف ’کلینک‘ پر تالا لگا دیا بلکہ تینوں پر ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ بھی درج کر لیا۔

اس وقت پاکستان میں تقریباً ہر چھوٹے بڑے شہر میں سینکڑوں ہیئر ٹرانسپلانٹ یعنی بالوں کی پیوند کاری کے کلینکس کھلے ہوئے ہیں۔ صرف پشاور میں فی الوقت 30 سے زائد ایسی جگہیں موجود ہیں، جن میں اکثریت کے پاس نہ تو ٹرانسپلانٹ کے لیے کوئی سند ہے اور نہ تجربہ۔ پھر بھی یہ جعلی ڈاکٹر حکومت کی ناک کے نیچے کئی سالوں سے لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پشاور میں ہیئر ٹرانسپلانٹ کے مستند اور معروف ڈاکٹر اسسٹنٹ پروفیسر حبیب اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اکثر مرد بال جھڑنے کی وجہ سے ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں، ایسے میں اگر وہ بال لگوانے کے لیے کسی جعلی ڈاکٹر کے ہاتھ چڑھ جائیں تو دوہری مصیبت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ’ایسی صورتحال میں پیسے اور وقت کے ضیاع کے ساتھ ساتھ ہی ان کی جان کو بھی خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔‘

عموماً ہیئر ٹرانسپلانٹ کی فیس 80 ہزار سے لے کر ڈیڑھ لاکھ  روپے تک ہوتی ہے جب کہ اس کے پروسیجر پر تقریباً 10 سے 12 گھنٹے لگتے ہیں۔ مہنگا اور مشکل طریقہ ہونے کے باوجود مردوں میں اس کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔

اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ پشاور میں واقع ایسے کلینکس میں کوئی بھی دن خالی نہیں جاتا جہاں دو سے تین لوگوں کی سرجری نہ ہوتی ہو۔

ایسے کلینکس کے کچھ مالکان نے سند یافتہ ڈاکٹروں کے نام پر لائسنس تو حاصل کر لیا ہے لیکن وہ ڈاکٹر خود وہاں پر موجود نہیں ہوتے, صرف ان کا نام چل رہا ہوتا ہے۔

ڈاکٹر جبیب اللہ  کا کہنا ہے کہ بال لگوانے کے شوقین حضرات اکثر بل بورڈز پر لگی تصاویر سے متاثر ہوکر اس کلینک میں جاتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ کیا سرجری کرنے والا شخص تجربہ اور اجازت نامہ رکھتا بھی ہے کہ نہیں۔

’میرے پاس مختلف عمروں کے مرد آتے ہیں، جن میں نصف سے زیادہ لوگ جعلی ڈاکٹروں کے ہتھے چڑھ چکے ہوتے ہیں، اکثر مرد حضرات تو زیادہ پریشانی کی وجہ سے رو رہے ہوتے ہیں۔

’کل ہی میرے پاس ایک 35 سالہ شخص آیا جس نے پانچ مختلف کلینکس سے بال لگوائے اور نتیجہ یہ ہے کہ ہیئر ٹرانسپلانٹ تو ناکام ہوا ہی ساتھ ہی ان کے جو تھوڑے بہت بال تھے وہ بھی چلے گئے۔‘

ڈاکٹر حبیب کا کہنا ہے کہ ان کے پاس کئی ایسے لوگ آ رہے ہیں جو جعلی ہیئر ٹرانسپلانٹ کلینکس میں اپنا نقصان کر بیٹھے ہیں۔

انہوں نے مشورہ دیا کہ بہتر ہوگا کہ بالوں کی سرجری ناکام ہونے کے بعد متعلقہ کلینک اور ڈاکٹر سے بحث کرنے کی بجائے شروع میں اپنی تسلی کی جائے۔ ’مثلاً کسی بھی ہیئر ٹرانسپلانٹ کلینک میں پہلے یہ پوچھنا چاہیے کہ آیا خود کو ڈاکٹر کے نام سے مخاطب کرنے والے اس شخص کے پاس کوئی سند ہے؟ کیا سرجری کے دوران وہ ڈاکٹر خود موجود ہوگا؟ کیونکہ یہ بہت ضروری ہے کہ سب کچھ ڈاکٹر کی نگرانی میں ہو۔ 

’اس کے علاوہ بال لگوانے سے پہلے خون کے ٹیسٹ کروانا لازمی ہے تاکہ آپ سے کسی دوسرے کو یا آپ کو کوئی بیماری نہ لگے۔ اگر یہ ٹیسٹ آپ سے نہیں مانگے جاتے تو ایسی جگہ جانے سے گریز کرنا چاہیے۔‘

ہیئر ٹرانسپلانٹ سرجری کون کر سکتا ہے؟

پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی ) کے مطابق صرف ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیئر ٹرانسپلانٹ نہیں کر سکتا بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایم بی بی ایس کے ساتھ ساتھ  پی ایم ڈی سی سے تسلیم شدہ پلاسٹک سرجری میں بھی تربیت حاصل کی گئی ہو۔ بصورت دیگر ایسے ڈاکٹر جو مذکورہ اضافی سند نہیں رکھتے ان کو پی ایم ڈی سی کے آرڈیننس 1962 کے تحت سزا دی جائے گی۔

پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کا کہنا ہے کہ بالوں کی پیوندکاری کرنے والے ڈاکٹروں کو چاہیے کہ اپنا رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ کلینک میں ایسی جگہ پر لگائیں جہاں سے یہ مریضوں کو واضح اور باآسانی نظر آسکے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت