کراچی میں وزیرستان کی سیاست: جے یو آئی اور پی ٹی ایم آمنے سامنے

پی ٹی ایم کا بڑھتا اثر و رسوخ دیکھ کر جے یو آئی (ف) نے بھی کراچی میں آباد محسود قبائلیوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔

پشتون تحفظ موومنٹ  کےکراچی میں چارفروری کومنعقد ہ ایک اجلاس کی تصویر (تصویر  پی ٹی ایم کراچی)

کراچی کی وہ پختون آبادیاں جہاں جنوبی وزیرستان کے محسود قبائل اکثریت میں آباد ہیں، گذشتہ کئی مہینوں سے سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام(ف) کراچی کے مضافات میں ان کچی آبادیوں کے محسود قبائلیوں خصوصاً نوجوانوں میں پشتون تحفظ موومنٹ  (پی ٹی ایم) کی مقبولیت کو روکنے کی کوشش کررہی ہے۔

دونوں سیاسی گروہ اپنے اجتماعات میں باقاعدگی سے جنوبی اورشمالی وزیرستان سے منتخب اپنے اراکین پارلیمنٹ کی شرکت کو یقینی بنا رہے ہیں۔

باقاعدگی سے منعقد ہونے والی پی ٹی ایم کی سرگرمیاں کراچی کے مضافات میں محسود قبائل تک ہی محدود ہیں جن میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے کارکن بھی شرکت کرتے ہیں۔

ان اجتماعات میں پی ٹی ایم کے مرکزی رہنما شمالی وزیرستان سے منتخب آزاد ایم این اے محسن داوڑ اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے ایم پی اے میرکلام وزیر بھی چند ماہ قبل شرکت کرچکے ہیں۔ حال ہی میں نو فروری کو ابوالحسن اصفہانی روڈ پرایک ہال میں منعقدہ پی ٹی ایم کے پروگرام میں پاکستان پیپلزپارٹی شہید بھٹو گروپ کی سربراہ غنوی بھٹو نے بھی خصوصی طورپرشرکت کی۔

دوسری جانب گذشتہ چند ماہ سے جے یوآئی (ف) جنوبی وزیرستان کی قیادت کی ایما پرجماعت کی جانب سے کراچی میں آباد محسود قبائل پرخصوصی توجہ دے رہی ہے۔

جنوری میں جنوبی وزیرستان سے منتخب جے یوآئی (ف) کے ایم این اے مولانا جمال الدین اورایم پی اے مولانا عصام الدین قریشی نے کراچی میں پانچ دن انہی آبادیوں میں جماعت کی سرگرمیوں میں گزارے۔

اس کے علاوہ کراچی کی سطح پر محسود اوربرکی قبائلیوں کے اموردیکھنے کے  لیے ’حلقہ محسود رابطہ کمیٹی برائے کراچی‘ کے نام سے ایک علیحدہ تنظیمی ڈھانچہ تشکیل دیا گیا ہے۔ ملک عنایت اللہ محسود کی سرپرستی میں محسود اور برکی قبائل کے علمائے کرام اس کمیٹی کے اراکین ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کراچی کے مضافات میں واقع سہراب گوٹھ اور اس پاس کی محسود آبادیاں وہی علاقے تھے جہاں جنوری 2018 میں ایک جعلی پولیس مقابلے میں جنوبی وزیرستان کے رہائشی نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ احتجاج کراچی سے خیبرپختونخوا کے علاقوں ٹانک اورڈی آئی خان پہنچا اوروہاں سے منظورپشتین کی قیادت میں نقیب اللہ محسود کے  لیے انصاف مانگنے کے لیے اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے والے جلوس میں ہی پی ٹی ایم کی باقاعدہ بنیاد رکھی گئی۔

سہراب گوٹھ میں مقیم محسود قبائلی رہنما ہاشم محسود نے بتایا کہ جنوبی وزیرستان میں جون2009  میں تحریک طالبان پاکستان کے شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کے سبب کراچی منتقل ہونے والے محسود قبائل کئی سالوں تک بڑی مشکلات سے دوچار رہے۔  ان میں سب سے اہم مسئلہ قانون نافذ کرنے والے اداروں خصوصاً پولیس کا محسود قبائلیوں کوطالبان شدت پسندوں کے نام پرہراساں کرنا تھا۔

’یہ شکایات اس حد تک بڑھ گئی تھیں کہ پولیس انہیں پیسے لے کر چھوڑ دیتی یا پھر انہیں جعلی مقابلوں میں مار دیا جاتا۔ البتہ نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل کے بعد شروع ہونے والی تحریک کی وجہ سے یہ سلسلہ رک گیا۔‘

ہاشم محسود کے مطابق ان ساری پریشانیوں میں سیاسی جماعتوں خصوصاً جے یوآئی (ف)، عوامی نیشنل پارٹی اوردیگر  نے خاموشی اختیارکیے رکھی جسے محسود قبائل نے بڑی شدت سے محسوس کیا۔

البتہ نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل کے بعد جاری احتجاج کے سبب جہاں کراچی میں پولیس کی جانب سے بے جا گرفتاریوں اورجعلی مقابلوں کاسلسلہ رک گیا، وہی پی ٹی ایم کی شکل میں محسود نوجوانوں کوایک نئی سیاسی قوت مل گئی۔

سہراب گوٹھ میں ہی مقیم ایک صحافی کے مطابق ’کراچی میں پی ٹی ایم کے حامیوں کی اکثریت محسود قبائلی نوجوان ہیں جو آپریشن کے سبب کراچی  منتقل ہونے پرمجبورہوئے تھے، جبکہ تین چار دہائیوں سے آباد قبائلیوں کی پی ٹی ایم کی جانب دلچسپی نہ ہونے کے برابرہے۔‘

انہوں نے کہا کہ پی ٹی ایم کی حمایت کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ ’تحریک کے پانچ بنیادی مطالبات بنیادی طورپرجنوبی وزیرستان کے انہی قبائل کے آبائی علاقوں کے مسائل سے متعلق ہیں۔‘

تاہم سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں پی ٹی ایم کی سرگرمیوں کے نتیجے میں جے یوآئی (ف) کے گڑھ سمجھے جانے والے جنوبی وزیرستان اورشمالی وزیرستان کی سیاست پرگہرے اثرات مرتب ہورہے ہیں اور2018 کے عام اور2019 کے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں مذہبی جماعت کو پی ٹی ایم کی جانب سے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

2018 کے عام انتخابات میں جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان سے بالترتیب پی ٹی ایم کے حمایت یافتہ علی وزیراورمحسن داوڑ جے یوآئی(ف) کے امیدواروں سے جیت گئے، جبکہ جنوبی وزیرستان کی دوسری نشست پر پی ٹی ایم کا امیدوارنہ ہونے کے سبب جے یوآئی(ف) کے مولانا جمال الدین دوبارہ منتخب ہوئے۔

اسی طرح 2019 میں منعقد ہونے والے جنوبی وزیرستان کے محسود علاقے کی ایم پی اے کی نشست پرجے یوآئی(ف) کے مولانا عصام الدین قریشی بھی پی ٹی ایم کے حمایت یافتہ امیدوار سے سخت مقابلے کے بعد جیتے۔  

کراچی کے ایک اور صحافی منیراحمد شاہ کا کہنا ہے کہ جنوبی وزیرستان میں جے یو آئی (ف) کی کامیابی میں کراچی میں رہائش پذیر ووٹرز اہم کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ قومی وصوبائی نشستوں پر جے یو آئی کو اتنے ہی مارجن سے کامیابی ملی جتنے ووٹر وہ کراچی سے لے جانے میں کامیاب رہی۔

’انتخابات کے موقعے پر کراچی میں رہائش پزیر جنوبی وزیرستان کے ووٹرز کو ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے خصوصی طور پر بسوں میں لے جانے کے انتظامات کیے جاتے ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست