غم و غصے میں ڈوبتے کراچی کا المیہ

بھٹو کے دور میں کراچی میں ترقیاتی کام تو ہوا مگر ساتھ ہی زمینوں کی ایسی بندر بانٹ ہوئی کہ بھٹو صاحب کو اس وقت کے وزیر اعلیٰ جام صادق سے کہنا پڑا کہ مزار قائد نہ بیچ دینا۔

چار سو لوٹ مار، لوٹ کھسوٹ، پانی نایاب، بجلی کمیاب، بیروزگاری، مفلسی، جرائم کا انبار، پبلک ٹرانسپورٹ ناپید، سرکاری تعلیمی ادارے غائب، امن عامہ سوالیہ نشان، کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں؟  (اے ایف پی)

 دلی بار بار اجڑتا اور بستا رہا، تیمور اور نادر شاہ نے خون کی ندیاں بہائیں، انگریزوں نے بربادی کی ہولناک داستان رقم کی، علم، ثقافت، تہذیب و تمدن کا مرکز دلی بار بار اجڑا مگر بیرونی حملہ آوروں اور لٹیروں کے جاتے ہی دلی  کو بسانے کی جنگ شروع  ہو جاتی۔

کراچی کا المیہ یہ ہے کہ اسے لوٹنے والے غیر نہیں اپنے ہیں، نوحہ کون لکھے اور کس کے ہاتھ پر لہو تلاش کیا جائے۔ ایک لاوارث شہر کی داستان، اپنوں کے ہاتھوں لٹنے والوں کا المیہ یہ ہے کہ شکایت بھی نہیں کی جا سکتی، مستزاد یہ کہ کراچی کو اجاڑنے والے تو بہت مگر بسانے والا کوئی نہیں ہے، کراچی سب کا ہے مگر کراچی کا کوئی نہیں۔

سمجھ نہیں آتا شہر آشوب کا قصہ کہاں سے شروع کروں۔ آمروں کو ملزم ٹہراؤں یا سیاسی رہنماؤں پر الزام لگاؤں، اسٹیبلشمنٹ کو دوش دوں یا عوامی نمائندگان کا دامن پکڑوں، پیپلز پارٹی پر انگلی اٹھاؤں یا ایم کیو ایم کو آئینہ دکھاؤں، سرکاری محکموں کا رونا روؤں یا مقدس اداروں کی دہائی دوں، عجب مخمصہ ہے۔

اس کراچی کا احوال لکھوں جو روشنیوں کا شہر تھا یا اس کا جو اندھیروں میں ڈوب چکا ہے، اس شہر کا قصیدہ لکھوں جہاں صبح دم دھلی دھلائی سڑکیں چمچماتی تھیں یا اب ٹوٹی پھوٹی شکستہ شاہراؤں کا مرثیہ، چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہنے والے بڑے بڑے لوگوں کا احوال بتاؤں یا عظیم الشان غیر قانونی رہائشی منصوبوں کا دکھڑا سناؤں، مملکت خداداد کو پالنے والے شہر کے گن گاؤں یا دودھ دینے والی گائے کی بوٹیاں نوچنے والوں کے لچھن بتاؤں، عجب مخمصہ ہے، عجب المیہ ہے۔

کراچی مملکت خداداد کا پہلا دارالخلافہ، تعلیم یافتہ، باشعور اور مہذب لوگوں کا مسکن، پاکستان کا ضمیر، اپوزیشن کی آواز شاید اسی کی سزا ملی وطن عزیز کے پہلے آمر ایوب خان کی اسٹیبلشمنٹ نے ملک پر مسلط ہوتے ہی 1958 میں دارالخلافہ اسلام آباد منتقل کیا، ہری پور کے قریب جو ان کا آبائی علاقہ بھی ہے۔ عوامی دباؤ کے باعث جنوری 65 میں آمر مطلق جنرل ایوب کو انتخابات کروانے پڑے، مادر ملت فاطمہ جناح مقابل آئیں ملک بھر کی جمہوری قوتیں اور عوام ان کے ساتھ، قیادت کراچی کے پاس مگر اسٹیبلشمنٹ کو لگا قومی سلامتی کے لیے فوجی جنرل ناگزیر ہے سو انتخابی نتائج اسٹیبلشمنٹ کے حق میں رہے اور کراچی غم و غصے اور مایوسی میں ڈوب گیا۔ ایسی کشیدہ صورتحال میں جعلی فتح کے نشے مں سرشار آمر اول کے ولی عہد گوہر ایوب نے آبائی علاقے سے لشکر لا کر کراچی کو روند ڈالا، لالو کھیت (لیاقت آباد) میں ٹرکوں پر فتح کا بڑا جلوس نکالا، شہر قائد میں مادر ملت کے چاہنے والے دکھ میں ڈوبے عوام مشتعل ہوئے تو نہتے عوام  پر براہ راست فائرنگ کی گئی، کچھ مرے، کچھ زخمی ہوئے،  گھر اور دکانیں جلائی گئیں، ہجرت کا دکھ جھیلنے والوں کو اپنے ملک میں بھی یہ دن دیکھنا پڑا۔ یہ کراچی کا پہلا لسانی فساد تھا، زہر کے بیج بو کر اسٹیبلشمنٹ نے کراچی پر پہلی فتح حاصل کی اور یوں آمریت کا پنجہ اقتدار پر مضبوط ہو گیا، عجب المیہ ہے۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بھٹو کے دور میں کراچی میں ترقیاتی کام تو ہوا مگر ساتھ ہی زمینوں کی ایسی بندر بانٹ ہوئی کہ بھٹو صاحب کو اس وقت کے وزیر اعلیٰ جام صادق سے کہنا پڑا کہ مزار قائد نہ بیچ دینا۔ اس کے ساتھ ہی کوٹا سسٹم ناٖفذ کر کے منافرت و عصبیت کی ایک اور فصل لہلائی۔ بھٹو دور میں بھی کراچی اپوزیشن کی آواز تھا جماعت اسلامی اور جمیعت العلمائے پاکستان کے ساتھ پروفیسر غفور اور شاہ احمد نورانی جیسے رہنماؤں کے پیچھے، 1979 میں بھٹو کے خلاف متحدہ اپوزیشن پی این اے کی نو ستاروں والی طوفانی تحریک کا مرکز، بالاخر بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر ایک اور غاصب جنرل ضیاالحق تخت آمریت پر جلوہ نشین ہوا۔ 

اول اول تو مذہبی جماعتوں نے ساتھ دیا مگر جلد سمجھ آ گیا کہ ضیائی تبلیغ کا مقصد اول و آخر اقتدار اور صرف اقتدار ہے سو جلد ہی طلاق ہو گئی۔ کراچی کا مسئلہ ہمیشہ یہ رہا کہ آواز اٹھاتا رہا، سوال کرتا رہا، یہ جرم ہر حاکم کے نزدیک نا قابل معافی ٹہرا اور آمر کے نزدیک تو قابل گردن زدنی، سو اسٹیبلشمنٹ نے شہر قائد میں اپوزیشن اور مذھبی جماعتوں کا زور توڑنے کے لیے ایک خوفناک فیصلہ کیا، 85 میں طالبہ بشری زیدی کی ہلاکت کے بعد بدترین لسانی فسادات ہوئے، سو لسانیت کو بنیاد بنا کر مہاجر قومی موومنٹ کو سرکاری سرپرستی عطا کی گئی، اس وقت کے وزیر اعلیٰ اور سابق جسٹس غوث علی شاہ نے ایم کیو ایم کو سیاسی قوت بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ یہ خوفناک سازش کراچی کے شعور اور نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کر گئی، شہر قائد کی تہذیب، روایات، وضعداری اور مرکزیت کو زندہ دفن کر دیا گیا، تعصب، منافرت، فرقے، لسانیت کو خوب ہوا دی گئی، نسلوں کے ہاتھ میں کتاب کے بجائے ہتھیار تھما مستقبل کو بھیانک اندھیروں میں دھکیل دیا گیا۔ کراچی کے سیاسی شعور کو تعصب کے کلہاڑے سے قتل اور اٹھنے والی آواز کا گلا گھونٹ دیا گیا، سوال کو حرف غلط کی طرح قومی یادداشت سے مٹا دیا گیا۔

چار سو لوٹ مار، لوٹ کھسوٹ، پانی نایاب، بجلی کمیاب، بیروزگاری، مفلسی، جرائم کا انبار، پبلک ٹرانسپورٹ ناپید، سرکاری تعلیمی ادارے غائب، امن عامہ سوالیہ نشان، کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں؟ 

شاید دنیا کا واحد شہر ہے جہاں نصف بلدیہ اور نصف کنٹونمنٹ کی زد میں ہے۔ عشروں پہلے بحالی امن کے لیے رینجرز کو بلایا گیا اب مجال ہے کوئی جانے کا کہہ سکے، یہ ہمت کسی آمر میں بھی نہیں، کیا کیا جائے۔ عوام کیا کریں، وفاق سندھ اور سندھ وفاق پر ذمہ داری ڈال دیتا ہے، میئر سندھ حکومت کا رونا روتے ہیں اور حکومت سندھ بلدیہ کا فسانہ سناتی ہے۔ ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، قبضہ مافیا، دہشتگردی، فسادات، ہڑتالیں بھگتنے والا کراچی آج کیا ہے،  بجٹ کا 70 فیصد بوجھ اٹھانے والا شہر، سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا، سمندری اور ہوائی پورٹس سے 95 فیصد آمدن فراہم کرنیوالا، ایک میگا سٹی، چھوٹا پاکستان، معیشت کی ریل کا انجن، پاکستان کی پہچان اور ایک ایسی ماں جس کی ناخلف اولاد مال و دولت کی خاطر اسے یرغمال بنائے ہوئے ہے۔

آج کراچی کا مقدمہ چیف جسٹس کو لڑنا پڑ رہا ہے، ہولناک انکشافات، بندر بانٹ میں مقدس، غیر مقدس برابر کے شریک، سرکاری، غیر سرکاری بقدر استطاعت شامل ہیں۔ عدالت عظمیٰ میں سماعت ہوتی ہے، معزز جج صاحبان کراچی کا نوحہ پڑھتے ہیں، مقتدر ملزمان کو جھنجھوڑتے ہیں تو کچھ ہلچل مچتی ہے، مگر جلد ہی سب بھول بھال کر دوبارہ لوٹ مار میں مصروف ہو جاتے ہیں، جانے یہ سلسلہ کب تک ایسے ہی چلتا رہے گا۔

سوال یہ ہے کہ کراچی کو کون چلا رہا ہے، اسٹیبلشمنٹ، سیاستدان یا عوام، وقت ملے تو سوچیے گا ضرور کیوں کہ یہی اصل المیہ ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ