سوشل میڈیا کے نئے قواعد: ’پاکستان چینی ماڈل اپنا رہا ہے‘

میڈیا کی آزادی کے لیے کام کرنے والوں کا کہنا ہے سوشل میڈیا پر بابندیوں کا سب سے زیادہ نقصان وزیر اعظم عمران خان کو ہو گا۔

مئی 2010 میں کراچی میں ایک صارف یوٹیوب دیکھتے ہوئے (اے ایف پی)

وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے سوشل میڈیا سے متعلق نئے قواعد و ضوابط کو پاکستانی شہریوں کے حقوق کے تحفظ کی ایک کوشش قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نئی پالیسی کے لاگو ہونے کے بعد سوشل میڈیا کمپنیاں پاکستان کی قومی سلامتی اور مفادات سے متعلق زیادہ محتاط ہو جائیں گی۔

پاکستان میں سوشل میڈیا کو پابند بنانے کی غرض سے تحریک انصاف حکومت نے یو ٹیوب، فیس بک، ٹوئٹر، ٹک ٹاک اور ڈیلی موشن جیسی تمام ڈیجیٹل سوشل میڈیا کمپنیوں پر بعض شرائط عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس سلسلے میں وفاقی حکومت نے 1996 کے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن (ری آرگنائزیشن) ایکٹ کے تحت نئے قواعدو ضوابط تشکیل دیے ہیں جنہیں سیٹیزنز پروٹیکشن (اگینسٹ آن لائن ہارم) رولز 2020 کا نام دیا گیا ہے۔

وفاقی کابینہ نے ان رولز کی منظوری دے دی ہے اور حکومتی ذرائع کے مطابق ان کا پارلیمان کے سامنے پیش کیا جانا ضروری نہیں ہے۔

نئے رولز کا مقصد ’سکیورٹی  ادروں اور ملکی سلامتی کے خلاف اور مذہبی منافرت پھیلانے والے مواد کو کنٹرول‘ کرنا ہے۔

یاد رہے کہ کچھ ہی روز قبل پاکستان الیکٹرانک میڈیا اتھارٹی (پیمرا) نے ویب ٹی وی اور او ٹی ٹی چینلز کو اپنے دائرہ کار میں لانے کے لیے ایک عوامی مشاورتی عمل شروع کیا تھا جس کے تحت پاکستانی شہریوں سے اس متعلق تجاویز مانگی گئیں تھیں۔ تاہم سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے حقوق انسانی نے پیمرا کو ایسا کرنے سے روک دیا۔

نئے رولز پر بات کرتے ہوئے آن لائن سکیورٹی پر کام کرنے والے ادارے ڈیجیٹل رائٹس پاکستان کی سربراہ نگہت داد کا کہنا تھا: ’پیمرا کے مجوزہ ریگولیشنز نے جان چھوٹھنے کے بعد آئی ٹی منسٹری نے سٹیزن پروٹیکشن (اگینسٹ آن لائن ہارم) رولز 2020 پیش کر دیے ہیں۔ یہ پی ای سی اے سے زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔‘

رولز کا غلط استعمال ہو سکتا ہے؟

حکومتی بیانیے کے برعکس روایتی اور سوشل میڈیا پر اور میڈیا کی آزادی کے لیے کام کرنے والے اداروں اور شخصیات نے نئے رولز کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں پاکستانی عوام کے لیے سائبر سپیس تنگ کرنے کی ایک کوشش قرار دیا ہے۔

اکثر ماہرین کا خیال تھا کہ حکومت اور ریاستی ادارے نئے رولز کا غلط استعمال کریں گے اور اس سے شہریوں کے حقوق کا تحفظ نہیں بلکہ ان پر مزید قدغنیں لگے گی۔

میڈیا کی آزادی کے لیے کام کرنے والے پاکستانی ادارے فریڈم نیٹ ورک کے سربراہ اقبال خٹک نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’ہماری تاریخ گواہ ہے کہ ریاست نے ہمیشہ قوانین کا غلط استعمال کیا ہے، تو ہم یہ کیسے تصور کر سکتے ہیں کہ ان رولز کو صحیح طور پر لاگو کیا جائے گا۔‘

اس سلسلے میں انہوں نے تحریک طالبان پاکستان کے سابقہ ترجمان احسان اللہ احسان کے سکیورٹی اداروں کی حراست سے فرار ہونے کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’حکومت نے کہا تھا کہ دہشت گردی سے متعلق قوانین دہشت گردوں پر لگیں گے، لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ قوانین صحافیوں کو پابند سلاسل کرنے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔

انہوں نے نئے رولز کو خطرنال قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے لاگو ہونے کے بعد سیاسی امور اور حکومت کی کارکردگی پر لکھنے اور بولنے والے پاکستانی یوٹیوبرز زیر عتاب آئیں گے۔

سینئیر صحافی عدنان رحمت نے کہا کہ حکومت پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو اپنے کنٹرول میں لے آنے کے بعد اب سوشل میڈیا کی طرف بڑھ رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے تحریک انصاف حکومت نے صحافیوں پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے بڑی کمپنیوں کو قابو میں کرنے کا پلان بنایا ہے۔ ’جب فیس بک، ٹک ٹاک، ٹویٹر اور یوٹیوب جیسی بڑے ادارے قابو میں آجائیں تو اپنی مرضی کا مواد سوشل میڈیا پر لگوانا اور وہاں سے ہٹوانا بہت آسان ہو جائے گا۔‘

فیس بک اور یوٹیوب  پر معاشرتی، سماجی اور سیاسی امور پر بے لاگ تبصرے اور اظہار خیال کرنے والے سینیئر صحافی شیراز پراچہ کا کہنا تھا: ’عمران خان نے پہلے بالخصوص تحریک انصاف سے منسلک اور بالعموم دوسرے پاکستانی نوجوانوں کو سوشل میڈیا استعمال کرنے کی ترغیب دی اور آج انہی کی حکومت ابلاغ کے اس ذریعہ پر قدغن لگا رہی ہے۔‘

ان کا خیال تھا کہ نئے قواعد و ضوابط پر عمل درآمد دراصل عمران خان کے ابتدائی بیانیے کی نفی ہو گی۔

شیراز پراچہ کے مطابق: ’ایسے قوانین بنانے سے دنیا بھر میں پاکستان اور پاکستانی معاشرے کی بدنامی ہو گی۔‘

لکھاری، سیاست دان اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے افراسیاب خٹک کا کہنا ہے: ’سوشل میڈیا پر اختلافی آوازوں کو خاموش کرنے کے لیے مجوزہ ’سکیورٹی رولز‘ ناجائز غصب کرنے والوں کے عدم تحفظ کی عکاسی کرتے ہیں۔ لیکن اگر گذشتہ سات دہائیوں کے تجربات سے کچھ حاصل نہیں کرنا تو لوگوں کو ظلم اور شدید معاشی استحصال کے خلاف جدوجہد سے روکا نہیں جا سکتا۔‘ 

صحافی طلعت حسین نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا: ’پاکسان میں سوشل میڈیا پر بد ترین قدغن کا آغاز۔ فیس بک، یوٹیوب، ٹوئٹر وغیرہ سب ریاستی بوٹ کے نیچے۔ عمران بچاؤ، عوام نچاؤ مہم کا ابتدایہ۔ یہ ملک برما یا دوسری جنگ عظیم کا جرمنی بنایا جا رہا ہے۔ ایک ناکام تجربہ اب جھوٹ اور گمراہ کن پروپیگنڈے کے ذریعے کامیاب دکھایا جائے گا۔‘ 

جبکہ سماجی کارکن گل بخاری کہتی ہیں: ’حکومت نے خاموشی سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی زبان بندی کے لیے نیا قانون بنا لیا ہے۔ سوشل میڈیا کمپنیوں کو پابند کرنے کی کوشش کے ان کا مواد ہٹا دیں اور ان کے اکونٹ بند کریں۔۔۔۔‘

پاکستان نہ چین ہے نہ ایران

عدنان رحمت کا خیال تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے چین اور ایران کا ماڈل پاکستان میں لاگو کرنے جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا یہ ویسا ہی ہے جیسے جنرل ضیا الحق کے دور اقتدار میں ریستورانوں میں ’سیاسی گفتگو منع ہے‘ کے بورڈ لگے ہوا کرتے تھے، تاکہ لوگ اس دن، ہفتے یا مہینے کے اہم ایشوز پر گفتگو نہ کر سکیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ چین میں سیاسی آزادی تو نہیں ہے لیکن وہاں کی عوام کو معاشی آزادی اور آسودگی حاصل ہے جبکہ پاکستان میں 60 فیصد نوجوان بے روزگار ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شیراز پراچہ نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا پر لکھ اور بول کر یہ نوجوان بڑی حد تک اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں، جو ان کے کیتھارسس کے لیے ضروری ہے۔

فری لانس جرنلسٹ جمشید اقبال لکھتے ہیں: ’اگر سوشل میڈیا بند بھی کیا جائے گا تو یہ بالکل ایسے ہوگا جیسے کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلیتا ہے۔ جو باتیں پاکستانی ریاست کو اپنی سلامتی کے خلاف لگتی ہیں، وہ بیرون ملک سوشل میڈیا پر ہوتی رہیں گی، انہیں کاونٹر کرنے والا کوئی نہ ہوگا اور اس پابندی سے جس کا نقصان ہوگا، وہ پاکستان کے اپنے روایتی بیانیہ کا ہے۔ جب کبوتر آنکھ کھولے گا تو دنیا کو پہچان نہیں پائے گا۔‘

شیراز پراچہ کہتے ہیں کہ نواز شریف اور آصف زرداری کے خلاف کئی سال تک الیکٹرانک میڈیا پر پروپیگنڈہ جاری رہا اور انہوں نے سب کچھ برداشت کیا، نہ کہ ٹی وی چینلز کو بند کروایا۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کو بھی اپنی حکومت اور پالیسیوں پر تنقید برداشت کرنا چاہیے۔

سوشل میڈیا کمپنیاں مانیں گی؟

وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی چوہدری فواد حسین نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں دفاتر قائم کرنے سے متعلق فیس بک اور یوٹیوب سے معاہدہ طے پا گیا ہے، تاہم ٹوئٹر میں اس سلسلے میں بات چیت چل رہی ہے۔

نئے رولز کے تحت ان کے لاگو ہونے کے تین ماہ کے اندر سوشل میڈیا کمپنیوں کو پاکستان میں دفاتر قائم کر کے یہاں کے لیے نمائندے تعینات کرنا ہوں گے، جبکہ اپنا ایک بیک اپ سرور بھی پاکستان میں رکھنا ہو گا۔

اب اگر سوشل میڈیا کمپنیاں تین ماہ کے اندر ایسا نہیں کرتیں تو نئے رولز کے تحت تعینات کیا جانے والے نیشنل کوآرڈینیٹر ان کی سائٹس پر پابندی عائد کرنے کے علاوہ انہیں جرمانہ بھی کر سکتے ہیں۔

سوشل میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا کہ فیس بک یا یوٹیوب جیسی بڑی کمپنیاں پاکستانی قانون کی وجہ سے یہاں اپنے دفاتر کھولیں اور سٹاف رکھیں۔

ڈیجیٹل کمیونیکیشن پر کام کرنے والے پاکستانی ادارے بائٹس فار آل کے سربراہ شہزاد احمد کا کہنا تھا کہ کوئی بھی سوشل میڈیا کمپنی پاکستان آنے کو تیار نہیں ہو گی۔

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’اس سے قبل پاکستان میں فیس بک تین دن اور یوٹیوب تقریباً تین سال تک بند رہ چکا ہے اور کمپنی کے کان پر جوں بھی نہیں رینگی۔‘

فری لانس صحافی جمشید احمد نے اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں کہا: ’جو کچھ حکومت سوشل میڈیا کمپنیوں سے چاہتی ہے، وہ ایسا نہیں کریں گی۔‘

عدنان رحمت نے سوال اٹھایا کہ فیس بک یا کوئی بھی دوسری بین الاقوامی کمپنی پاکستان آکر کیوں مقامی قوانین کے طابع ہونا چاہے گی؟ ان کا کہنا تھا کہ ایسا ہونا ممکن نہیں لگتا۔

نقصان کس کا؟

اور اگر سوشل میڈیا کمپنیاں پاکستان میں دفاتر قائم نہیں کرتیں اور ان کی سائٹس بند کرنے کی نوبت آتی ہے تو اس سے نقصان کس کا ہو گا۔

جمشید اقبال لکھتے ہیں: ’اگر پاکستان سوشل میڈیا بند کرتا ہے تو اس وقت کوئی ایسا کاروبار نہیں جو سوشل میڈیا کے بغیر چل رہا ہو۔ ایسا ہوا تو اس ملک کی معیشت کا مزید بیٹرا غرق ہوگا۔ مجھے نہیں لگتا کہ فیس بک، گوگل اور ٹوئٹر جن میں سے ہر ایک کا انفرادی بجٹ پاکستان کے بجٹ سے زیادہ ہے، وہ پاکستان کی شہرت کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے آگے گھٹنے ٹیک دیں گے اور یہاں کے نظریات کو اس قدر اہم سجھیں گے جتنے یہ یہاں سمجھے جاتے ہیں۔‘

شہزاد احمد کے مطابق نقصان سراسر پاکستانیوں اور پاکستانی معاشرے کا ہو گا کیونکہ بہت سارے چھوٹے چھوٹے کاروبار اب انٹرنیٹ سے منسلک ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ حتیٰ کہ حکومتی اداروں کی سینکڑوں ویب سائٹس ہیں جن پر ان کی کارکردگی کی تعریفیں کی جاتی ہیں۔

شہزاد نے مزید کہا کہ تحریک انصاف حکومت ملک میں سیاحت کے فروغ کے لیے فیس بک کو استعمال کر رہی ہے جو بہت اچھا اقدام ہے، لیکن فیس بک بند ہونے کی صورت میں سیاحت کہاں جائے گی؟

اقبال خٹک کہتے ہیں سوشل میڈیا بند ہونے کی صورت میں سب سے بڑا نقصان وزیر اعظم عمران خان کا ہو گا کیونکہ ان کے ٹوئٹر پر ایک کروڑ سے زیادہ فالوورز ہیں جن کو وہ اکثر پیغامات دیتے رہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا: ’وزیر اعظم صاحب نہ پریس کانفرنس کرتے ہیں نہ میڈیا سے ملتے ہیں بلکہ صرف ٹوئٹر پیغامات ہی دیتے ہیں، تو سب سے بڑا نقصان تو انہی کا ہوا۔‘

 

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان