تھرپارکر میں تعلیمی اداروں کی قلت اور ایک سکول کا قیام

جب تھرپارکر میں سکول قائم ہوا تو انیلا نے مجھے بتایا کہ ہم نے لڑکیوں کے لیے سکول قائم کیا ہے، لیکن اب والدین کہتے ہیں کہ لڑکوں کے لیے بھی سکول قائم کیا جائے۔

ڈاکٹر گیوین کا کہنا تھا کہ جب وہ تھرپارکر گئیں تو انہیں ایک حیرت انگیز مسرت نے گھیر لیا۔ وہاں لوگ بجلی، پانی اور گیس جیسی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں، لیکن والدین اپنے بچوں کو تعلیم دلانا چاہتے ہیں۔(فیس بک)

یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ ہندوستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا، پاکستان سے تعلیمی سرگرمیوں میں بہت آگے نکل چکے ہیں۔ پاکستان میں تعلیم کے حصول میں کرپشن، مہنگائی اور والدین کی اجازت جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

لیکن یہ سبھی مسائل بڑے شہروں میں ہیں۔ چھوٹے شہر اور قصبوں میں سرے سے تعلیمی ادارے ہی موجود نہیں۔ جہاں تعلیمی ادارے ہیں وہاں اساتذہ نہیں، عمارتیں نہیں، عمارتیں ہیں، تو فرنیچر نہیں۔ انیلا علی پاکستانی نژاد امریکی ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں تعلیمی میدان میں بہتری لانے کا عزم کیا، اور اس مقصد کی خاطر CalPak Education Services کا آغاز کیا۔ یہ ادارہ کیلیفورنیا سدرن یونیورسٹی کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے اور پاکستان کے پسماندہ علاقوں، چھوٹے شہروں اور قصبوں میں تعلیمی مسائل کو حل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انیلا اور ان کی ٹیم تعلیمی اداروں میں موجود مسائل کی نشان دہی کرتی ہے اور کیلی فورنیا سدرن یونیورسٹی کی ڈاکٹر گیوین فائن سٹون اس مسائل کے حل کے لیے جتنی رقم درکار ہو فراہم کرتی ہیں۔

انیلا نے تھر پارکر کا رخ کیا اور وہاں تعلیمی اداروں، اسکولوں کی قلت کو شدت سے محسوس کیا۔ ڈاکٹر گیوین فائن سٹون کو ان حالات سے آگاہ کیا اور تھرپارکر میں اسکول کھولنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر گیوین نے خیر مقدم کیا۔

اس طرح اس کام کا آغاز ہوا۔ حال ہی میں Cal Pak Education Services نے تیسرے سکول کا سنگ بنیاد رکھا ہے۔ ڈاکٹر گیوین اس موقعے پر پاکستان میں موجود تھیں۔ وہ پاکستان میں تعلیم کی کمی پر افسردہ ہیں اور تعلیمی مسائل کو حل کرنے کے لیے پرعزم بھی۔ ڈاکٹر گیوین نہ صرف سکول بنانے میں مدد فراہم کرنے کے لیے کیلی فورنیا یونیورسٹی کے اساتذہ کی مدد سے پاکستان کے اساتذہ کو کچھ خاص کورس کروانے کا ارارے بھی رکھتی ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ میں پاکستان کے تعلیمی معیار یر یہاں کے اساتذہ کے پڑھانے کے طریقے کو بہتر کرنا چاہتی ہوں۔ ’ہم نے اساتذہ کی باقاعدہ تربیت کا ارادہ کیا ہے۔ پہلے ہم صرف ان اسکولوں کے اساتذہ کی تربیت کریں گے، جو Calpak  نے بنائی ہیں۔ اس کے بعد اگر کوئی اور تعلیمی ادارہ ہم سے اساتذہ کی تربیت کے حوالے سے رابطے کرے گا تو ہم یقیناً مدد کریں گے۔‘

ڈاکٹر گیوین کا کہنا تھا کہ جب وہ تھرپارکر گئیں تو انہیں ایک حیرت انگیز مسرت نے گھیر لیا۔ وہاں لوگ بجلی، پانی اور گیس جیسی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں، لیکن والدین اپنے بچوں کو تعلیم دلانا چاہتے ہیں۔ بچے علم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہنر سیکھنا چاہتے ہیں۔ زبان سیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے اسکول میں پڑھنے والے بچوں کے والدین اور دیگر گھر والوں نے دعائیں دیں۔ تحفے تحائف دیے۔ مجھ پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔‘

ڈاکٹر گیوین کا کہنا ہے کہ ’جب تھرپارکر میں سکول قائم ہوا تو انیلا نے مجھے بتایا کہ ہم نے لڑکیوں کے لیے سکول قائم کیا ہے، لیکن اب والدین کہتے ہیں کہ لڑکوں کے لیے بھی سکول قائم کیا جائے۔ یہ بات میرے لیے حیران کن تھی۔ میں سوچ سکتی ہوں کہ لڑکے، لڑکیوں کو دو الگ کمروں میں بیٹھا کر تعلیم دی جائے، لیکن ایک مکمل الگ سکول کا قیام، یہ بات بہت حیران کن اور عجیب لگی، لیکن میں ان بچوں کو تعلیم دلانے کے حق میں ہوں تو میں نے انیلا علی کی بات مان لی۔‘

اچھی بات یہ ہے کہ Cal Pak کا کوئی مخصوص مشن نہیں، کوئی خاص ہدف نہیں۔ ڈاکٹر گیوین فائن سٹون بتاتی ہیں کہ ہم نے یہ نہیں سوچ رکھا کہ ایک ہی علاقے میں سو سکول قائم کر دیں اور سب کو بتاتے پھریں، بلکہ ہم ضرورت کے مطابق کام کریں گے۔ جہاں جتنی ضرورت ہو گی اتنے سکول قائم کریں گے اور وہاں اساتذہ کی تربیت کریں گے۔

ڈاکٹر گیوین فائن سٹون، انیلا علی اور ان کی ٹیم ہمارے شکریے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے دن رات ایک کر کے پاکستان کے ایک پس ماندہ علاقے میں تعلیم کا ایک چھوٹا سا دیا روشن کرنے کی کوشش کی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ