اپنی پیدائش کو ریپ کا ثبوت قرار دینے والی خاتون کے والد گرفتار

خاتون جن کی شناخت کو محفوظ رکھنے کے لیے ان کا نام ’وکی‘ بتایا جا رہا ہے، ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی والدہ 13 سال کی تھیں جب وکی کے والد نے ان کا ریپ کیا تھا۔

وکی کو 1970 کی دہائی میں سات ماہ کی عمر میں گود لیا گیا تھا۔ ان کی پیدائش ریپ کے نتیجے میں ہوئی، انہیں اس حقیقت  کا علم 18 سال کی عمر میں ہوا جب انہوں نے سوشل سروسز ریکارڈز کے ذریعے اپنی حقیقی والدہ کی تلاش شروع کی۔(پکسابے)

 

ایک خاتون نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی پیدائش اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کی والدہ کا ریپ ہوا تھا۔ اس کے بعد ایک شخص کی گرفتاری پیش آئی اور پھر انہیں رہا کر دیا گیا ہے، تاہم ان پر تفتیش جاری ہے۔   

خاتون جن کی شناخت کو محفوظ رکھنے کے لیے ان کا نام ’وکی‘ بتایا جا رہا ہے کا دعویٰ ہے کہ ان کی والدہ 13 سال کی تھیں جب وکی کے والد نے ان کا ریپ کیا تھا۔

وکی نے گذشتہ سال اگست میں نشر ہونے والے ’بی بی سی‘ کے پرگرام ’وکٹوریا ڈربی شائر‘ میں بتایا تھا کہ ان کے والد ان کی والدہ کے خاندان کے دوست تھے اور جب انہوں نے ریپ کیا تو ان کی عمر تیس سال سے کچھ زائد تھی۔

کئی برس تک پراسیکیوٹرز کو یہ کیس لینے کے لیے منانے کی کوشش کرنے کے بعد وکی حال ہی میں ہونے والی اس شخص کی گرفتاری کی خبر پر خوش ہیں۔

وکی نے ’بی بی سی نیوز‘ کو بتایا ’میں حالات کو بدلنے کے لیے پرعزم ہوں تاکہ دوسرے لوگ اس صورت حال کا سامنا نہ کریں جس سے مجھے گزرنا پڑا ہے۔‘

وکی کو 1970 کی دہائی میں سات ماہ کی عمر میں گود لیا گیا تھا۔ ان کی پیدائش ریپ کے نتیجے میں ہوئی، انہیں اس حقیقت  کا علم 18 سال کی عمر میں ہوا جب انہوں نے سوشل سروسز ریکارڈز کے ذریعے اپنی حقیقی والدہ کی تلاش شروع کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کئی برسوں بعد وہ اپنی حقیقی ماں سے ملیں لیکن وہ پولیس کے پاس نہیں جانا چاہتی تھیں۔ تاہم وکی نے جمی ساویل کی موت کے بعد بڑی تعداد میں جنسی جرائم منظر عام پر آنے کے بعد یہ مقدمہ درج کروانے کا فیصلہ کیا۔ (جمی ساویل ایک مشہور ٹی وی اور ویڈیو شخصیت تھے جن پر کئی بچوں کا جسنی استحصال کرنے کا الزامات سامنے آئے تھے۔)

وکی کا ماننا ہے کہ پولیس ڈی این اے ٹیسٹ اور برتھ سرٹیفیکیٹ کو استعمال کرتے ہوئے ان کے حقیقی والد کی شناخت اور ان کی پیدائش کے وقت والدہ کے کم عمر ہونے کا تعین کر سکتی ہے۔

وکی کا کہنا تھا ’میں اپنی ماں کے لیے انصاف چاہتی ہوں۔ میں اپنے لیے انصاف چاہتی ہوں۔ یہ بات مجھے بہت غصہ دلاتی ہے جس نے میری حقیقی ماں اور مجھے برباد کر دیا۔‘

پولیس نے ’دی انڈپینڈنٹ‘ کو بتایا ’ایک 73 سالہ شخص کو گذشتہ ہفتے مزید ثبوت سامنے آنے پر دوبارہ گرفتار کیا گیا ہے۔ ان سے تفتیش کی گئی جس کے بعد انہیں ضمانت پر چھوڑ دیا گیا ہے اور اس معاملے پر کراؤن پرسیکیوشن سروس سے مشورہ لیا جائے گا۔‘

وکی نے درخواست دی تھی کہ ویسٹ مڈ لینڈز پولیس ایک کم عمر کے ریپ کی تحقیقات کرے جو کہ ’متاثرہ فرد کے بغیر چلائے جانے والا مقدمہ‘ ہو۔

ان کا کہنا تھا ’میں ہمیشہ سوچتی تھی کہ یہ بہت غلط ہے کہ میرے حقیقی والد پر مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ تب میں نے سوچا میرے پاس ڈی این اے کا ثبوت موجود ہے اور میں اس جرم کا چلتا پھرتا ثبوت ہوں، یہ سب فائلوں میں لکھا ہوا ہے۔ لوگ مجھے ضرور سنجیدگی سے لیں گے۔‘

’متاثرہ فریق کے بغیر چلایا جانے والا مقدمہ‘ ایسی صورت میں چلایا جا سکتا ہے جب متاثرہ فرد بیان دینے پر رضامند نہ ہو لیکن اس مقدمے کو چلانا عوامی مفاد میں ہو تاکہ متاثرہ فریق کو مزید جرائم سے بچایا جا سکے۔

ایسے مقدمات میں تیسرا فریق جو اس مقدمے سے بالواسطہ طور پر جڑا ہو، جیسے طبی عملہ، تو اس کے بیانات کو ثبوت کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اگر متاثرہ فریق نے ابتدائی طور پر پولیس کو شکایت کی ہو لیکن اس کے بعد وہ اپنی شکایت واپس لے لے تو پراسکیوشن ان کے بیانات کو ’مقدمات سے جڑے افراد‘ کے طور پر استعمال کر سکتی ہے۔ وکیل دفاع اور استغاثہ دونوں کو ان بیانات کو بطور ثبوت تسلیم کرنے پر اتفاق کرنا ہوتا ہے۔

اس سے قبل وکی کہہ چکی ہیں کہ پولیس، سماجی خدمات کے مجاز ادارے اور ارکان پارلیمنٹ انہیں بتا چکے ہیں کہ کوئی مقدمہ نہیں بن سکتا کیوں کہ وہ ’مبینہ متاثرہ فریق نہیں ہیں۔‘

گذشتہ سال ویسٹ مڈلینڈز پولیس نے ایک بیان میں کہا تھا ’قانون انہیں ان حالات میں متاثرہ فرد کے طور پر تسلیم نہیں کرتا۔ ہم نے اس معاملے میں سی پی ایس سے مشاورت کی اور ان کا کہنا تھا کہ وہ معاملے میں قانونی کارروائی کی حمایت نہیں کرتے۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ