’امن معاہدے میں افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کا کوئی ذکر نہیں‘

قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے نگرانی کا میکنزم رکھا گیا ہے۔

جون 2019 میں دوحہ میں ہونے والے انٹرا افغان ڈائیلاگ کے دوران افغان طالبان کے ترجمان شرکا سے بات کرتے ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ امن معاہدے پر دستخط کرنے کی تقریب کی حتمی تاریخ کا اعلان آئندہ ایک آدھ دن میں کر دیا جائے گا (اے ایف پی)

افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ امن معاہدہ کا مسودہ تیار کر لیا گیا جبکہ اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے نگرانی کا میکنزم معاہدے کے متن کے اندر رکھا گیا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے قطر میں سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ معاہدے میں مانیٹرنگ میکنزم موجود ہے، جس کے ذریعے معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔

تاہم انہوں نے امن معاہدے کی نگرانی کے عمل سے متعلق مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔

سہیل شاہین نے کہا کہ امن معاہدے پر دستخط کرنے کی تقریب کی حتمی تاریخ کا اعلان آئندہ ایک آدھ دن میں کر دیا جائے گا۔

’اس سلسلے میں دوحہ میں موجود ہمارا سیاسی دفتر ایک بیان جاری کرے گا۔‘

امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان بات چیت کا عمل 2018 سے جاری ہے۔ گذشتہ سال ستمبر میں دونوں اطراف کے درمیان معاہدہ طے پا گیا تھا جسے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عین وقت پر التوا میں ڈال دیا۔

تاہم حال ہی میں دوبارہ شروع ہونے والے مذاکرات کے عمل کے نتیجے میں امن معاہدے کا مسودہ تیار کر لیا گیا ہے جس پر صرف دستخط ہونا باقی ہیں۔

افغان طالبان سیاسی دفتر کے اہلکار مولوی عبدالسلام حنفی نے دو روز قبل ایک ویڈیو بیان میں بتایا تھا کہ امن معاہدے کے مسودے پر دونوں اطراف کے نمائندوں نے عبوری منظوری دے  دی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا تھا کہ معاہدے پر باقاعدہ دستخط کرنے کی تقریب رواں ماہ کے آخر میں منعقد ہو گی۔ بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق دوحہ میں ہونے والی تقریب کا انعقاد 29 فروری کو کیا جا رہا ہے۔

توقع کی جا رہی تھی کہ امریکی حکام جرمنی میں منعقدہ حالیہ مینونخ سیکیورٹی کانفرنس کے دوران معاہدے کی تفصیلات شرکا کے سامنے رکھیں گے۔تاہم ایسا نہ ہونے کے باعث بعض حلقے معاہدے کے درست ہونے اور اس کی تفصیلات کے منظر عام پر آنے سے متعلق سوالات اٹھا رہے ہیں۔

افغان صدر اشرف غنی نے میونخ میں امریکی قانون سازوں کے ایک وفد کو بتایا تھا کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان طے پانے والے امن معاہدے کے مسودے کے ساتھ چار خفیہ دستاویزات لف کیے گئے ہیں جو شاید کبھی منظر عام پر نہ آئیں۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے امن معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس کی کامیابی سے متعلق محتاط رہتے ہوئے پرامید ہیں۔

سہیل شاہین کے مطابق معاہدے پر دستخط سے پہلے طالبان اور امریکی فوجوں کے درمیان جنگ بندی کی بات نہیں ہوئی۔انہوں نے کہا: ’نہ جنگ بندی کی بات ہوئی اور نہ ہم نے جنگ بندی کی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ طالبان کی طرف سے یہ شرط رکھی گئی ہے کہ معاہدے پر دستخط ہونے سے پہلے دونوں فریقین افغانستان میں سازگار ماحول پیدا کریں گے۔

بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق معاہدے پر دستخط ہونے کی تقریب سے ایک ہفتہ قبل دونوں اطراف کے درمیان مکمل جنگ بندی عمل میں لائی جائے گی۔ان اطلاعات کے درست ہونے کی صورت میں آئندہ دو روز کے دوران افغانستان میں موجود امریکی فوجوں اور طالبان جنگجووں کے درمیان جنگ بندی شروع ہو جانا چاہیے۔

سہیل شاہین نے مزید کہا کہ امن معاہدے پر دستخط کرنے کی تقریب میں 24 ملکوں کے نمائندے شرکت کریں گے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا دوسرے ملکوں کے نمائندے بھی معاہدے پر دستخط کریں گے تو ان کا کہنا تھا کہ تقریب میں موجود 24 ممالک کے نمائندے صرف دستخط ہونے کی تقریب کا مشاہدہ کریں گے۔

مولوی عبدالسلام حنفی کے مطابق افغانستان کے پڑوسیوں کے علاوہ، افغان امن میں کوئی بھی کردار ادا کرنے والے ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں بشمول اقوام متحدہ، او آئی سی اور یورپین یونین کے نمائندے بھی تقریب میں شریک ہوں گے۔

سہیل شاہین نے مزید کہا کہ معاہدے میں طالبان اور افغانستان میں موجود دوسرے جنگجو گرہوں کے مابین مذاکرات کا عمل شروع ہونے کا ذکر موجود ہے۔ تاہم انہوں نے وضاحت کی کہ خصوصی طور پر کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کا معاہدے کے متن میں کوئی ذکر نہیں ہے۔

مولوی عبدالسلام حنفی نے اپنے ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ امن معاہدے کے تحت قیدیوں کے تبادلے کا عمل مکمل ہونے پر کابل حکومت اور دوسرے جنگجو گروہوں کے ساتھ مذاکرات کا مرحلہ آئے گا۔

انہوں نے کہا تھا کہ معاہدے کے تحت طالبان کے پانچ ہزار اور مخالفین کے ایک ہزار جنگی قیدی رہا کیے جائیں گے، تاہم سہیل شاہین نے کہا کہ جنگی قیدیوں کی فہرستیں پہلے سے تیار ہیں اور معاہدے پر دستخط ہوتے ہی ان لسٹوں کا تبادلہ عمل میں آ جائے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا