سبی میلے کے افتتاحی کارڈ پر نواز شریف کی تصویر کیسے لگی؟

سبی میلے میں جن شہریوں کو افتتاحی تقریب کے لیے کارڈ جاری کیے گئے تھے ان پر نواز شریف کی تصویر واضح ہے اور اسی کارڈ کی بنیاد پر شہریوں کو گراؤنڈ کے اندر جانے کی اجازت دی گئی۔

سبی میلے کی افتتاحی تقریب کے کارڈ پر نواز شریف کی تصویر نے جہاں منتظمین کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے وہاں انتظامیہ کا موقف ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔( ہزار خان بلوچ)

سبی میلہ بنیادی طور پر زرعی میلہ ہے جہاں زمیندار اپنی فصل کی فروخت، زرعی سامان کی خریداری اور قرضوں کی وصولی کے لیے جمع ہوتے ہیں۔

عثمان ایک مالدار (جانور رکھنے والے ) ہیں جو گزشتہ تیس سال سے سبی میلے میں باقدعدگی سے شرکت کرتے ہیں۔ وہ یہاں نہ صرف اپنے بیلوں کی نمائش کرتے ہیں بلکہ انہیں فروخت بھی کرتے ہیں۔

محمد عثمان کے مطابق ’ہم سارا سال اپنے بیلوں کو پال کے طاقتور اور مضبوط بناتے ہیں تاکہ میلے میں ہمارے بیل کو زیادہ پسند کیا جائے اور اسے انعام مل سکے۔‘

محمد عثمان کے بقول ’میلہ جہاں ہمارے لیے شہرت کا ذریعہ ہے وہاں میں اور میرے جیسے دوسرے مالدار اپنے بیلوں کی نمائش کے علاوہ فروخت کرنے بھی آتے ہیں۔‘

سبی میلے کی تاریخ پرانی ہے اور اس کے تذکرے چاکر اعظم کے دور کی شاعری میں ملتے ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ میلہ لوگوں کے میل جول کی وجہ سے ایک مارکیٹ بن چکا ہے۔

ممتاز دانشور اور بلوچستان کی تاریخ پر نظر رکھنے والے مصنف ڈاکٹر شاہ محمد مری سمجھتے ہیں وقت کے ساتھ سبی میلے کی اہمیت بڑھ رہی ہے کیوں کہ یہ لوگوں کے ملنے جلنے کی وجہ ہے۔

ڈاکٹر شاہ محمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ چاکر اعظم سے بھی قبل کا چلا آرہا ہے جس میں وقت کے ساتھ جدت آرہی ہے۔ پہلے یہ زرعی میلہ ہوتا تھا بعد میں مالدار بھی اس میں شریک ہونے لگے۔

ڈاکٹر شاہ محمد کے مطابق سبی میلہ بنیادی طور پر زمانہ قدیم میں زرعی ہوتا تھا اور یہ اس وقت منعقد کیا جاتا تھا جب یہاں کے زمیندا ر گندم اور دوسری فصلیں کاٹتے تھے۔ 

ڈاکٹر مری کے بقول یہ میلہ لوگوں کے میل جول اور قرضے کے لین دین کا ذریعہ ہے۔ پہلے لوگ زراعت کے لیے نئی چیزیں خریدتے تھے اب لوگ دور جددید کی چیزیں موبائل وغیرہ خریدتے ییں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر مری کے مطابق ،یہ میلہ پہلے فصلوں کی کٹائی کے وقت منعقد کیا جاتا تھا بعد میں انگریز نے اس کی تاریخ مقرر کردی۔ تب سے فروری کے مہینے میں منعقد کیا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ میر چاکر خان رند کا دور چودھویں اور پندرھویں صدی کا تھا۔ اس دوران رند اور لاشار کی جنگ کی باعث میر چاکر یہاں سے ہجرت کرکے ملتان چلے گئے تھے۔

سبی میلے کی طرح کا دوسرا میلہ ڈیرہ غازی خان میں لگتا ہے۔ یہ بعد میں زمینداروں کے ساتھ مالداروں کا مرکز نگاہ بن گیا اور وہ بھی مال مویشیوں کی خریدو فروخت کے لیے آنے لگے۔

سبی زرعی علاقہ ہے اور یہاں کچھی، ناڑی، دریائے چاکر، دریائے کور کا پانی آتا ہے۔ اس وجہ سےیہاں زمیندار کاشت کردہ فصل کی فروخت کے لیے جمع ہوتے رہے ہیں۔ میلے کی وجہ بھی یہی ہے۔

میلے کی افتتاحی تقریب کے کارڈ پر نواز شریف کی تصویر کیسے لگی؟

سبی میلے کی افتتاحی تقریب کے کارڈ پر نواز شریف کی تصویر نے جہاں منتظمین کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے وہاں انتظامیہ کا موقف ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔

ڈپٹی کمشنر سبی زاہد حسین شاہ سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے رابطہ کیا کہ ماجرا کیا ہے تو انہوں نے بتایا کہ ’جو کارڈ سرکاری اہلکاروں ا ور اعلی حکام کو جاری کیے گئے ان پر نواز شریف کی تصویر نہیں ہے۔‘

زاہد حسین شاہ کے مطابق ’ہمارے علم میں نہیں کہ کسی کارڈ پر نواز شریف کی تصویر ہے تاہم ہوسکتا ہے کہ کسی نے کٹ پیسٹ کرکے کوئی کارڈ بنایا ہو جس میں نواز شریف کی تصویر لگی ہو۔‘

دوسری جانب سبی میلے میں جن شہریوں کو افتتاحی تقریب کے لیے کارڈ جاری کیے گئے تھے ان پر نواز شریف کی تصویر واضح ہے اور اسی کارڈ کی بنیاد پر شہریوں کو گراؤنڈ کے اندر جانے کی اجازت دی گئی۔

شہریوں کے مطابق انہیں یہ کارڈ انتظامیہ کی طرف سے دیے گئے تاکہ وہ افتتاحی تقریب کے دوران گراؤنڈ میں داخل ہوسکیں۔

ڈپٹی کمشنر سبی سے جب پوچھا گیا کہ کیا وہ کارڈ پر نواز شریف کی تصویر پرنٹ کرنے پر کوئی کارروائی کریں گے تو ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسا ہوا ہے تو ہم اپنی سطح پر اس کی تحقیق کریں گے۔

یار رہے  ایسی ہی ایک غلطی صدر پاکستان عارف علوی نے بھی سبی میلے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کے دوران کی۔ انہوں نے گورنر بلوچستان امان اللہ یاسین زئی کا قبیلہ تبدیل کرکے انہیں امان اللہ یوسفزئی کہہ ڈالا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان