بی آر ٹی منصوبے کی لاگت میں مزید چار ارب روپے سے زائد کا اضافہ

پشاور بس ریپڈ ٹرانسٹ (بی آرٹی) منصوبے کی لاگت میں مزید چار ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہو گیا ہے اور یوں اس منصوبے کی مجموعی لاگت 70 ارب روپے سے زائد تک پہنچ گئی ہے۔

بی آرٹی منصوبہ جب 2017 میں شروع ہوا تو اس کی مجموعی لاگت 49 ارب روپے تھی (پشاور  بس ریپڈ ٹرانزٹ/ فیس بک)

پاکستان تحریک انصاف کا پشاور میں شروع کردہ بس ریپڈ ٹرانسٹ (بی آرٹی) منصوبہ تاحال مکمل تو نہیں ہو پایا ہے مگر اس کی لاگت میں مزید چار ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہو گیا ہے اور یوں اس منصوبے کی مجموعی لاگت 70 ارب روپے سے زائد تک پہنچ گئی ہے۔

ایسا نہیں کہ یہ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے بلکہ اس سے پہلے بھی اس منصوبے کی لاگت میں کئی مرتبہ اضافہ کیا جا چکا ہے اور چند ماہ  قبل منصوبے کی مجموعی لاگت 66 ارب روپے تھی جو اب اس اضافے کے بعد 70 ارب روپے سے زائد تک پہنچ جائے گی۔

انڈپینڈنٹ اردو کو منصوبے کے بارے میں ایک میٹنگ کی دستاویزات کی کاپی ملی ہے جو 17 فروری کو وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے زیر صدارت منعقد ہوئی تھی۔

میٹنگ میں سیکرٹری ٹرانسپورٹ سمیت، منصوبے پر کام کرنے والی کمپنیوں کے نمائندے، ایشیائی ترقیاتی بینک کے نمائندے، پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی جو منصوبے کی نگرانی کر رہے ہیں کے ڈائریکٹر اور وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے شرکت کی تھی۔

اس میٹنگ میں فیصلے کے بعد پراجیکٹ ٹیم لیڈر نے پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر کے نام خط لکھا کہ انھیں منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے مزید چار ارب سے زائد کی رقم درکار ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دستاویزات کے مطابق اضافی رقم منصوبے کے مختلف مقامات کے لیے درکار ہے۔ دستاویز کے مطابق چمکنی سے فردوس تک منصوبے کے جز کو مکمل کرنے کے لیے ایک ارب اور امن چوک سے کارخانوں مارکیٹ تک جاتا ہے کو مکمل کرنے لیے ڈیڑھ ارب مزید رقم درکار ہے۔

اسی طرح دستاویز میں لکھا گیا ہے کہ پارکنگ پلازہ، پارک اینڈ رائڈ اور ٹرانس پشاور کے دفتر اور کنسلٹنٹ نگرانی کے لیے مجموعی طور پر مزید دو ارب سے زائد کی رقم درکار ہے۔

اس میٹنگ میں کیے جانے والے فیصلوں کے بعد پراجیکٹ کے ٹیم لیڈر نے پی ڈی اے کو ایک دوسرا خط لکھا جس میں وزیر اعلیٰ کی زیر صدرات میٹنگ میں فیصلوں کے بعد منصوبے کے لیے درکار مزید رقم کو جاری کرنے پر کام شروع کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔

یاد رہے کہ بی آرٹی منصوبہ جب 2017 میں شروع ہوا تو اس کی مجموعی لاگت 49 ارب روپے تھی جس میں بعد میں وقتاً فوقتاً اضافہ کیا گیا اور اسی طرح اب منصوبے کی مجموعی لاگت تقریباً 71 ارب روپے تک جا پہنچی ہے۔

منصوبہ کتنا مکمل ہوگیا ہے؟

اس حوالے سے ایشین ڈولپمنٹ بینک کے جون 2019 سے نومبر 2019 تک ایک دستاویزات جو انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے میں لکھا گیا ہے کہ منصوبے کے ریچ ون یعنی چمکنی سے فردوس تک کا حصہ مئی 2019 تک مکمل کرنا تھا لیکن نومبر 2019 تک اس حصے پر 93 فیصد کام مکمل ہوا ہے۔

اسی طرح منصوبے کا دوسرا حصہ جو فردوس سے امن چوک تک جاتا ہے پر کام مئی 2019 تک مکمل ہونا تھا لیکن نومبر 2019 تک اس حصے کا 85 فیصد کام مکمل کیا گیا ہے۔ اسی طرح منصوبے کے آخری حصے جو امن چوک سے کارخانوں مارکیٹ تک جاتا ہے پر بھی 100 فیصد کام مئی 2019 تک مکمل ہونا تھا لیکن نومبر 2019 تک اس پر 88 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔

منصوبے کے اندر مختلف ڈیپو بھی بننے ہیں۔ حیات آباد میں بننے والے ڈیپو پر اب تک 57 فیصد کام مکمل ہوا ہے حالانکہ دستاویز کے مطابق اس پر کام مکمل کرنے کی تاریخ دسمبر 2018 تھی جبکہ چمکنی میں بننے والے ڈیپو پر 65 فیصد کام مکمل ہوا ہے۔

اس حوالے سے صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے رابطہ کیا اور ان سے پوچھا کہ منصوبے کی لاگت میں مزید اضافہ کیا گیا ہے اس کی وجہ کیا ہے تو بغیر جواب دیے انھوں نے فون بند کر دیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان