میں خود طالبان سے معاہدے پر دستخط کروں گا: صدر ٹرمپ

بھارت کے دورے پر روانگی سے قبل صدر ٹرمپ نے کہا کہ آنے والے فیصلوں کا انحصار افغانستان میں جاری ’تشدد میں کمی‘ کے ہفتے کے دوران ہونے والی پیش رفت پر ہو گا۔

بھارت  کے دورے پر جانے سے قبل صدر ٹرمپ اور ان کی اہلیہ میلانیا ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں (اے ایف پی)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اگر افغانستان میں طالبان کے ساتھ امن معاہدہ طے پا جاتا ہے تو وہ خود اس پر خود دستخط کریں گے۔

بھارت کے دورے پر روانگی سے قبل وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا: ’ہاں، میں اس (معاہدے) پر اپنا نام ڈالنا چاہوں گا۔‘

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی صدر کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب افغانستان میں ممکنہ امن معاہدے سے قبل ہفتے کے روز سے امریکہ، افغان سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان ’تشدد میں کمی‘ کا ایک ہفتہ جاری ہے۔ 

اس عبوری جنگ بندی کا مقصد 29 فروری کو قطر میں ہونے والے ممکنہ تاریخی امن معاہدے سے قبل واشنگٹن اور طالبان کے درمیان مزید شرائط طے کرنا ہے جس کے بعد امریکہ جنگ زدہ ملک سے 18 سال بعد اپنی فوجیں نکال لے گا۔

اتوار کو دیے گئے بیان میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ واضح نہیں کیا کہ انہوں نے کس قسم کے دستاویز پر دستخط کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ فیصلوں کا انحصار عارضی جنگ بندی کے دوران ہونے والی پیش رفت پر ہو گا۔

امریکی صدر کا کہنا تھا: ’تشدد میں کمی کا عمل جاری ہے۔ (عارضی جنگ بندی کے لیے) ابھی ڈیڑھ دن ہی گزرا ہے۔ ہم دیکھیں گے (آگے) کیا ہوتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’میں دیکھنا چاہوں گا یہ (جنگ بندی) کا ہفتہ کیسے گزرتا ہے۔ اگر یہ آئندہ ایک ہفتے سے بھی کم عرصے تک کامیابی سے چلتا ہے تو میں اس (معاہدے) پر اپنا نام ڈالنا چاہوں گا۔ یہ انخلا کا وقت ہے اور وہ بھی اسے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ طالبان بھی معاہدہ کرنا چاہتے ہیں، وہ جنگ لڑتے لڑتے تھک چکے ہیں۔‘

اس سے قبل جمعہ کو امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے مطابق 29 فروری کو امن معاہدے پر دستخط کی تیاریاں کر رہے ہیں۔

ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ افغان حکومت کے ساتھ مشاورت کے بعد دوحہ میں امریکہ مصالحت کار طالبان کے ساتھ افغانستان بھر میں تشدد میں کمی پر متفق ہوئے ہیں۔ ’اس مفاہمت میں پیش رفت کے بعد امریکہ اور طالبان کے درمیان باضابطہ معاہدے پر پیش رفت ہوگی۔ ہم 29 فروری کو اس پر دستخط کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔‘

افغانستان کے ایک اہم عہدے دار کا کہنا ہے کہ واشنگٹن اور افغان طالبان کے درمیان ممکنہ امن معاہدے سے قبل امریکہ، طالبان اور افغان سکیورٹی فورسز کے درمیان ایک ہفتے تک ’تشدد میں کمی‘ پر اتفاق کے بعد اس پر عمل 22 فروری سے ہو چکا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پومپیو کا مزید کہنا تھا کہ معاہدے پر دستخط کے بعد افغانوں کے درمیان مذاکرات جلد شروع ہوں گے جو اس سمجھوتے کو بنیاد بنا کر ایک جامع اور مستقل جنگ بندی اور افغانستان کے سیاسی مستقبل کا نقشہ طے کریں گے۔ ’چیلنج باقی ہیں لیکن دوحہ میں پیش رفت امید دیتی ہے اور ایک اچھا موقع فراہم کرتی ہے۔ امریکہ افغانوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں۔‘

اگر یہ عبوری جنگ بندی آگے بڑھتی ہے تو یہ 18 سالہ افغان جنگ کے دوران تاریخی پیش رفت ہو گی، جس سے امن معاہدے پر پہنچنے میں مدد ملے گی اور بلآخر جنگ کا خاتمہ ہو سکے گا۔         

امریکہ ایک سال سے زیادہ عرصے سے طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے لیے مذاکرات کر رہا ہے جس کے تحت وہ طالبان کی جانب سے امن کی ضمانت کے عوض افغانستان سے اپنے ہزاروں فوجیوں کو نکال لے گا۔

تشدد میں کمی کے عبوری معاہدے سے اشارہ ملے گا کہ طالبان اپنی فورسز پر کنٹرول کی صلاحیت رکھتے ہیں اور وہ اس ممکنہ امن معاہدے سے قبل نیک نیتی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ امن معاہدے کی صورت میں پینٹاگون افغانستان میں موجود اپنے 12 سے 13 ہزار فوجیوں میں سے اکثریت کو واپس وطن بلا لے گا۔

اس سے قبل بھی امریکہ اور طالبان امن معاہدے کے قریب پہنچ چکے تھے تاہم آخری لمحات میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ پرتشدد واقعات کو وجہ قرار دے کر اس سے پیچھے ہٹ گئے تھے۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا