’کیا آج کا بلوچستان بلوچوں کا نہیں؟‘

کراچی ادبی میلے میں بلوچستان کی نمائندگی غیر بلوچوں کی جانب سے کیے جانے پر احتجاج

’بلوچستان کے مسائل پر بات کرنے کے لیے بلوچی نمائندے کیوں نہیں؟ آخر بلوچی کہاں ہیں؟ ہماری آواز کو کیوں دباتے ہو؟ نہ ہم اِنہیں جانتے نہ یہ ہمارے مسائل کو، تو پھر ہمارے نمائندے کیوں بنتے ہیں؟ کیا آج کا بلوچستان بلوچوں کا نہیں؟‘

ہزاروں کے مجمعے میں سے ایک شخص ہاتھ میں اخبار لیے، کالا چشمہ کالی واسکٹ پہنے، عمر رسیدہ، زمانہ دیدہ، اچانک اپنی نشست سے اٹھے اور سٹیج کے سامنے کھڑے ہو کر احتجاجاً مطالبہ کرنے لگے کہ بلوچستان کے مسائل پر ہونے والے مباحثے میں آخر بلوچی نمائندے کیوں نہیں، اس پر میزبان اور انتظامیہ خاموش رہیں اور ہال تالیوں سے گونج اٹھے تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ بلوچوں کو ایک بار پھر اپنی نمائندگی سے محروم کر دیا گیا۔  

دسویں کراچی ادبی میلے کے تیسرے اور آخری روز ہونے والے سیشن ’سوروز آف بلوچستان‘ (بلوچستان کے دکھ) میں باقی سیشنز کے برعکس عوام کی کافی تعداد موجود تھی مگر نصف گھنٹہ گزر جانے کے بعد لوگ اپنی نشستوں سے کھڑے ہو کر بار بار یہی سوال کرتے رہے کہ مہمانوں کے پینل میں بلوچی نمائندے کیوں نہیں؟ جس پر پینل میں موجود صحافی اور اینکرپرسن مجاہد بریلوی نے جواب دیا کہ ’بلوچستان کے سرداروں اور نوابوں سے زیادہ دوسرے لوگوں نے بلوچستان کے حق میں آواز اٹھائی ہے، کیا بلوچی عاصمہ جہانگیر اور حبیب جالب کی خدمات کو بھول گئے، وہ بلوچی نہیں تھے اور اس ہی طرح یہ پینل بھی بلوچستان کی نمائندگی کر رہا ہے۔‘

لیکن اصل مسئلہ بلوچوں کی نمائندگی سے زیادہ اس بات کا تھا کہ دسویں کراچی ادبی میلے میں ’سوروز آف بلوچستان‘ سیشن جس مقصد کے لیے رکھا گیا تھا وہ پورا نہ ہو سکا۔

مباحثے میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی جن میں سے اکثریت بلوچ نوجوانوں کی تھی۔ اس سیشن کے پینل میں سابق مشیر وزیراعلیٰ بلوچستان قیصر بنگالی، ریٹائرڈ آرمی افسر اکرام سہگل جو بلوچستان میں 1973کے دوران کاؤنٹرانسرجنسی میں کمپنی کمانڈر بھی رہے اور سینیئر صحافی مجاہد بریلوی بھی موجود تھے۔

اس سیشن کی میزبانی تجزیہ کار ڈاکٹر ہما بقائی نے کی۔ 

سوال جواب کا سیشن شروع ہوا تو لوگوں نے اُن بنیادی مسائل کے حوالے سے سوالات کیے جن کا ذکر پینلسٹ کو کرنا چاہیے تھا لیکن ہوا نہیں۔ ایک بلوچی خاتون نے سوال کیا کہ آج بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ گم شدہ افراد کا ہے، پھر اس مسئلے کے حل پر کیوں بات نہیں ہوئی؟

جامعہ کراچی کے ایک نوجوان طالبِعلم، جنھوں نے اپنا تعلق کوئٹہ سے بتایا، سوال کیا کہ بڑے شہروں اور جامعات میں ہمارے ساتھ نسل پرستانہ سلوک کیوں ہوتا ہے؟ ہمیں تعلیم و ترقی کے مواقع میں سب سے پیچھے کیوں رکھا جاتا ہے؟

ایک اور شخص نے بڑے دل خراش انداز میں پینل سے یہ بھی پوچھ لیا کہ آخر بلوچستان پاکستان کے نقشے پر ہے بھی یا نہیں اور کیا گوادر کا پہلا حق بلوچستان کا نہیں؟

اِن تمام تر سوالات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دسویں کراچی لٹریچر فیسٹیول میں انتظامیہ کی ترجیہات صرف تقریبات کی زیادہ تعداد، بڑے سپانسرز اور اس فیسٹیول کی کمرشلائزیشن تک ہی محدود تھیں۔ اس ہی وجہ سے تقریبات کے معیار کو بھرپور طریقے سے نظر انداز کیا گیا اور جو معاملہ ہم نے اوپر بیان کیا یقیناً انتظامیہ اس سے نا آشنا ہو گی کیونکہ اب شاید میعاری لٹریچر فیسٹیول کروانے سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہر سال کراچی لٹریچر فیسٹیول ضرور کروایا جائے۔

لٹریچر فیسٹیول اپنی تمام رونقوں کے ساتھ اختتام پذیر ہو گیا۔

پاکستان بھارت کشیدگی کے باوجود انتہائی ہائی الرٹ میں ہونے والا یہ اپنی نوعیت کا پہلا لیکن اس سلسلے کا دسواں کراچی لیٹریچر فیسٹیول تھا۔ اس ادبی میلے کا مقصد پاکستان میں تہذیب و ثقافت کے مختلف رنگوں سے لوگوں کو روشناس کروانا ہے اور نوجوانوں میں علم و ادب کے شوق کو اجاگر کرنا ہے۔

کے ایل ایف کے پہلے روز مہمانِ خصوصی گورنر سندھ عمران اسماعیل اور آکسفورڈ یونیورسٹی پریس (او یو پی) کے مینیجنگ ڈائریکٹر ارشد سعید حسین نے خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی لٹریچر فیسٹیول صرف ایک تقریب نہیں بلکہ ایک سماجی تحریک ہے۔

پہلے دن کے آغاز میں ’پاکستانی سنیما: ماضی، حال اور مستقبل‘ کے نام سے آرٹس کانسل آف پاکستان کراچی کے صدر احمد شاہ کی صدارت میں سیشن منعقد کیا گیا جس میں پاکستانی ڈراموں کے مایۂ ناز اداکار آصف رضا میر، منور سعید، یاسر حسین، فہد مصطفیٰ اور فضا علی نے شرکت کی۔

اداکارہ مہوش حیات کے نہ آنے کی وجہ سے خواتین کی نمائندگی کم رہی۔ نبیل قریشی کی غیرحاضری اور یاسر حسین کے زیادہ تر سیشن میں خاموش رہنے کی وجہ سے میڈیا انڈسٹری میں نوجوانوں کے مستقبل اور انہیں پیش آنے والے مسائل کے حوالے سے تفصیلی بات چیت نہیں ہو سکی۔

 لٹریچر فیسٹیول کے تیسرے اور آخری روز تھیئٹر آئیکون اور نامور مصنف انور مقصود اور لیجنڈری اداکار و مشہور صداکار ضیا محی الدین کے سیشنز نے چار چاند لگا دیے۔ انور مقصود کے سیشن ’کچھ بھی‘ میں لوگ کافی بڑی تعداد میں موجود تھے، یہاں تک کہ بیٹھنے کے لیے سیٹیں کم پڑ گئیں تو لوگوں نے زمین پر بیٹھ کر انتہائی خاموشی اور توجہ سے انور مقصود صاحب کی دلچسپ باتیں سنیں جس میں انھوں نے پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان کی تعریفوں کے پل باندھ دیے۔

طنز اور مزاح سے بھرپور گفتگو میں عمران خان پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے ذو معنی بات کہی کہ ’کافی عرصے بعد ایک ایماندار وزیراعظم آیا ہے، دیکھنا ہے کہ کب تک رہے گا۔۔۔‘ اور یہ سن کر محفل میں قہقہے گونج اٹھے۔ لٹریچر فیسٹیول میں تیسرے روز ضیا محی الدین نے اپنے مخصوص انداز میں مشتاق احمد یوسفی کے طنز اور مزاح سے بھرپور اقتباسات پڑھ کر سنائے۔ اس سیشن میں بھی لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔

یقیناً انور مقصود اور ضیا محی الدین جیسی عظیم شخصیات کی موجودگی سے لٹریچر فیسٹیول کا معیار بہتر ہوتا ہے لیکن دیگر سیشنز کے معیار کو یقینی بنانا بھی انتظامیہ کی ہی ذمہ داری ہے۔ اگلے سال ہونے والے لٹریچر فیسٹیول کے لیے امید کرتے ہیں کہ تمام سیشیز اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے صحیح پینل کا انتخاب ضرور کریں۔

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین