لڑکیاں بیلن نہیں بلّا بھی گھما سکتی ہیں

پاکستان میں تقریباً ہر شعبے کی طرح کھیلوں میں بھی ’پدرشاہی‘ نظر آتی ہے اور ہر شعبہ کی طرح کرکٹ کے میدان میں بھی خواتین کو اپنی جگہ بنانے کے لیے بیشتر مشکلات کا سامنا ہے۔

پاکستان میں تقریباً ہر شعبے کی طرح کھیلوں میں بھی ’پدرشاہی‘ نظر آتی ہے اور ہر شعبہ کی طرح کرکٹ کے میدان میں بھی خواتین کو اپنی جگہ بنانے کے لیے بیشتر مشکلات کا سامنا ہے۔

آج کل ملک میں پاکستان سپر لیگ کا خوب چرچا ہے لیکن کم ہی لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اس وقت آسٹریلیا میں خواتین کا ٹی20 ورلڈ کپ چل رہا ہے اور پاکستان کا پہلا میچ 26 فروری کو ویسٹ انڈیز کے مخالف ہونے جا رہا ہے۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اور میڈیا خواتین کرکٹ کو کیوں وہی اہمیت نہیں دیتے جو مردوں کی کرکٹ کو ملتی ہے؟ خواہ وہ پی ایس ایل کی شکل میں ہو یا کسی ٹورنامنٹ کی شکل میں؟

کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ لڑکیاں اچھا کرکٹ نہیں کھیل سکتیں اور ان کے نزدیک لڑکیاں بلا نہیں بلکہ بیلن زیادہ اچھا پکڑتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خواتین کرکٹ میں پیسے لگانا خسارے کا سودہ ہے لیکن جس حساب سے ہر کرکٹ میچ میں کیمرا مین ڈھونڈ ڈھونڈ کر لڑکیوں کی شکلیں ٹی وی پر دکھاتے ہیں، اس سے مجھے تو یہی لگتا ہے کہ لوگ خواتین کی کرکٹ بھی انہی نظروں سے دیکھیں گے۔

مزید یہ کہ ان کے میچز دیکھنے کے لیے شاید خواتین بھی پیش پیش ہوں۔ نہ صرف وہ ٹی وی پر کرکٹ دیکھیں گی بلکہ سٹیڈیم بھی آئیں گی۔ خاص طور پر خواتین کرکٹ ٹی وی کے لیے مواد بنانے کا ایک بہترین ذریعہ ہوگا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ویسے جب ڈیجیٹل میڈیا کی بات کریں تو ہم سوشل میڈیا کو کیسے بھول سکتے ہیں۔ آئے دن سوشل میڈیا پر خواتین ہراساں کی جاتی ہیں۔ کرکٹ میچز سے خواتین کی تصاویر نکلتیں ہیں اور پھر انہی سکرین شاٹس کو نازیبا کمینٹس کے ساتھ وائرل کر دیا جاتا ہے۔

لڑکے شاید آپس میں شغل کر رہے ہوتے ہیں لیکن اس کا خواتین پر کافی منفی اثر پڑتا ہے۔ کمینٹس میں خواتین کی شکل اور جسم کو لے کر باتیں ہو رہی ہوتی ہیں۔ معاملہ اب اتنا گمبھیر ہو گیا ہے کہ کچھ لڑکیاں جو کرکٹ کی شوقین ہیں، وہ اب اتنا مایوس ہو گئی ہیں کہ وہ کرکٹ سٹیڈیم جانا مناسب نہیں سمجھتیں اور کچھ مرد حضرات بھی ایسے ہیں جو اپنے گھر کی خواتین کو منع کرتے ہیں کہ وہ سٹیڈیم نہ جائیں۔

’کچھ غلط ہو گیا تو؟ آپ کو لطف ملنے کے بجائے تکلیف ملے گی۔‘

ایک لڑکی کو کرکٹ میں دلچسپی لینے اور اسے شوق سے کھیلنے اور پھر اسے شعبے کے طور پر کھیلنے میں بہت سی مشکلات ہیں جن سے خواتین تو اپنے طور لڑ رہی ہیں لیکن اس پدرشاہی نظام کو توڑنے کے لیے خواتین کو ملک کے سربراہ، طاقتور لوگ اور عام مرد حضرات کی ضرورت ہے۔

پاکستانی معاشرہ کب عورت کے لیے سازگار ہوگا کہ ہم اپنے گھر سے سٹیڈیم تک کا سفر با حفاظت اور پر اعتمادی کے ساتھ طے کر سکیں؟ جب ہم کھیل رہے ہوں یا کھیل دیکھ رہے ہوں تو لوگ ہمیں ’گندی‘ نظروں سے نہ دیکھیں؟

 

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ