بغاوت کے مقدمات: پی ٹی ایم ورکر سے گھر والے کیا سلوک کرتے ہیں؟

ضلع مردان کے آرگنائزر 21 سالہ حسن ناصر پہلے دن سے پشتون تحفظ موومنٹ کے ساتھ ہیں، جن پر سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے ضلع مردان کے آرگنائزر حسن ناصر کہتے ہیں کہ غداری کے الزام لگنے اور جیل سے واپس آنے کے بعد دوستوں اور رشتہ داروں نے ان کے ساتھ رابطہ رکھنے میں احتیاط برتنا شروع کر دی ہے اور انہیں ڈر ہے کہ ایسا نہ ہو کہ ان پر بھی غداری کے فتوے اور بغاوت کے مقدمے درج ہو جائیں۔

21 سالہ حسن ناصر نے انڈپیندنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ وہ پہلے دن سے پی ٹی ایم کے ساتھ ہیں۔ ’جب پی ٹی ایم شروع ہوئی تو میں صوبہ سندھ کے شہر بدین میں محنت مزدوری کرتا تھا۔ وہاں پر مجھے پتہ چلاکہ ایک تنظیم بنی ہے جو پختونوں کے حقوق کی بات کرتی ہے تو وہاں سے میں نے اس کی سپورٹ شروع کی جب یہ اسلام آباد میں دھرنے کے لیے آئے تھے۔ پہلے دن سے آج تک میں اور میرا خاندان پی ٹی ایم کے سپورٹرز ہیں اور آگے بھی رہیں گے۔‘

حسن نے بتایا کہ انہوں نے میٹرک تک ریگولر پڑھائی کی اور اب فرسٹ ایئر میں بطور پرائیویٹ امیدوار داخلہ لیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ریگولر تعلیم انہوں نے اپنی مرضی سے چھوڑی اور اس پر پی ٹی ایم کا اثر نہیں ہے۔ دو ماہ قبل ہی انہیں پی ٹی ایم کے ضلعی آرگنائزر کا عہدہ دیا گیا۔

گرفتاریاں اور مقدمات

حسن نے بتایا کہ ’مجھے پہلی مرتبہ سندھ کے شہر بدین میں بغیر کسی مقدمے کے اس وقت گرفتار کیا گیا جب میں وہاں کی سبزی منڈی میں محنت مزدوری کر رہا تھا۔ 15 فروری 2019 کو سکیورٹی اہلکاروں نے مجھ اٹھایا اور تین چار دن تحویل میں رکھنے کے بعد رہا کر دیا۔‘

’وہاں سے اپنے گھر مردان آیا اور ایک ہفتے بعد واپس روزگار کی غرض سے بدین گیا تو سکیورٹی اہلکار دوبارہ آئے اور وہاں سے مجھے نکال دیا اور کہا کہ آپ واپس نہیں آسکتے۔‘

سندھ میں داخلے پر پابندی لگنے اور بے روزگار ہونے کے بعد حسن ناصر اپنے آبائی شہر مردان آ گئے اور دن رات مقامی سطح پر پی ٹی ایم کی سرگرمیوں کے لیے متحرک ہو گئے۔

انہوں نے بتایا: ’جب وزیرستان میں خڑکمر کا واقعہ ہوا تو ہمارے ساتھیوں نے پشاور میں احتجاجی دھرنا دیا ہوا تھا جس میں، میں نے شرکت کی۔ عیدالفطر سے ایک دن پہلے افطاری کے وقت پولیس نے ہم پر لاٹھی چارج کیا، جس کے نتیجے میں مجھ سمیت بہت سے ساتھی زخمی ہوئے جس پر پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے اعلان کیا کہ عید کے دوسرے دن پورے ملک میں احتجاج کیا جائے گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حسن کے مطابق: ’اسی سلسلے میں ہم نے مردان میں پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا تھا جس پر مجھ سمیت دیگر ساتھیوں پر دہشت گردی اور بغاوت کے مقدمے درج کیے گئے۔‘

گرفتاری کے بعد حسن ناصر نے ڈیڑھ ماہ مردان جیل میں گزارے نو جنوری 2020کو انہیں مردان سے اس وقت دوبارہ گرفتار کر لیا گیا جب وہ بنوں جلسے کے لیے مہم چلا رہے تھے۔ ایک مہینہ مردان جیل میں گزار کر انہیں اب ضمانت پر رہائی مل گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’مجھ پر سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیے گئے جس میں ریاست، فوج اور اسٹیبلشمنٹ مخالف ہونے کی دفعات لگائی گئیں کہ یہ ملک کے خلاف کام کر رہا ہے اور اداروں کے خلاف لوگوں کو اکسا رہا ہے۔‘

حسن نے مزید بتایا کہ جیل میں انہوں نے دو مرتبہ ڈیرھ، ڈیڑھ ماہ گزارے۔ ’جیل کے اندر بھی اور باہر بھی ہماری لیے کوئی مشکل نہیں ہے اور جیل میں تو باچا خان، صمد خان نے بھی وقت گزارا ہیں۔ میرے خیال میں جیلیں تو پشتونوں کو میراث میں ملی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ پی ٹی ایم کے تمام مقدمات شہاب خٹک اور ان کے فرزند جمال خٹک بغیر فیس کے لڑتے ہیں اور ان سے بھی کوئی فیس نہیں لی گئی۔

سماجی اور خاندانی رویہ

حسن نے بتایا کہ ’ظاہری طور پر میرے ساتھی ڈر رہے تھے۔ جب میں جیل سے آیا تو کوئی میرا فون نہیں اٹھا رہا تھا۔ یہ وجہ نہیں کہ وہ مجھ پر شک کر رہے تھے بلکہ وہ ڈر رہے تھے کہ ہمارے اوپر بغاوت کے فتوے اور غداری کے مقدمے نہ ہو جائیں۔ باقی ایسی کوئی بات نہیں اور ہر باشعور شہری یہ سمجھ رہا ہے کہ پی ٹی ایم کے مطالبات نہ صرف آئینی اور قانونی ہیں بلکہ شرعی اور انسانی بھی ہیں۔ میری گرفتار اور مقدمات درج ہونے کے بعد دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ تعلق پر اثر پڑا ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’گھر میں والدین کی طرف سے کوئی پریشانی نہیں ہے کیونکہ میرے والد ایک سیاسی اور نظریاتی ورکر ہیں۔ مجھے میرے والد صاحب سپورٹ کرتے ہیں۔ انہوں نے میرے پیچھے عدالتوں کے چکر لگائے اور رہائی کے دن تک عدالت آتے رہے۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا: ’البتہ خاندان کے لوگوں میں سے ہر ایک کی الگ الگ سوچ ہوتی ہے۔ کوئی نصیحتیں کرتا ہے کہ محنت مزدوری کرو اور اس سے دور رہو ۔ میں کہتا ہوں کہ محنت مزدوری تو میں کرتا تھا لیکن ان اداروں نے مجھے نہیں چھوڑا۔ اب تو میرے لیے یہی راستہ بچا ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی